افغان وزارت دفاع نے خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے علاقے بشام میں 26 مارچ کو چینی باشندوں پر ہونے والے حملے میں اپنے شہریوں کے ملوث ہونے کے فوجی ترجمان میجر جنرل احمد شریف کے دعوے کو مسترد کردیا، افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے پاکستان کے دعوؤں کو غیر ذمہ دارانہ اور حقیقت سے دور قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات پر افغانستان کو مورد الزام ٹھہرانا سچائی سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ایسے علاقے میں چینی شہریوں کا قتل جو پاکستانی فوج کے سخت حفاظتی حصار میں تھا، پاکستانی سکیورٹی اداروں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، ترجمان نے کہا کہ امارت اسلامیہ افغانستان نے اس معاملے پر چین کو یقین دہانی کرائی ہے اور وہ بھی اس حقیقت کو سمجھ چکا ہے کہ افغان شہری اس طرح کے معاملات میں ملوث نہیں ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ داعش کے ارکان پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں، ترجمان وزارت دفاع نے کہا کہ ہمارے پاس داعش کے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں داخل ہونے کے بہت سے شواہد موجود ہیں اور پاکستانی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے جس کا پاکستان کو جواب دینا چاہیئے، انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان، پاکستان کے استحکام اور سلامتی کو اپنے اور خطے کے مفاد میں سمجھتا ہے اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بھائی چارے اور اچھے تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک طویل پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایک اندوہناک واقعہ 26 مارچ 2024 کو خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں پیش آیا جہاں داسو ڈیم پر کام کرنے والی چینی انجینئرز کی گاڑی کو خود کش بم حملہ آور نے نشانہ بنایا، اس کے نتیجے میں 5 چینی باشندے اور ایک پاکستانی لقمہ اجل بن گئے، اس خود کش حملے کی کڑیاں بھی سرحد پار سے جا ملتی ہیں ، اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی، دہشت گرد، سہولت کاروں کا کنٹرول بھی افغانستان سے کیا جارہا تھا۔