یکم مارچ کو ایران میں رہبر انقلاب اسلامی کو منتخب اور برخاست کرنے کا اختیار رکھنے والی مجلس خبرگان اور ایرانی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے انتخابات ہونے جارہے ہیں، انتخابات سے دو زور قبل ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ایرانی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اِن الیکشن میں ایرانی عوام کی بھرپور شرکت قومی طاقت کا مظہر، سلامتی کی ضمانت اور ان دشمنوں کو مایوس کرے گی، جو سازشوں اور دہشت گردی کے ذریعے اسلامی جمہوری نظام کو کمزور کررہے ہیں، آیت اللہ نے مزید کہا کہ یکم مارچ کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی شرکت ملک کے مسائل کے حل کرنے اور ملک کو آگے بڑھانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوگی، آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب سے قبل پہلوی شہنشاہت میں جعلی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا پہلوی دور میں انتخابات میں حصّہ لینے والوں کی فہرستیں بعض مغربی ملکوں کے سفارتخانون میں تیار ہوا کرتی تھیں اور بیلٹ بکس کی کوئی حرمت نہیں تھی اور بعض اوقات بیلٹ بکس سفارتخانوں سے باہر نکلتے تھے اور یوں کامیاب اُمیدواروں کا انتخاب مکمل ہوتا تھا لیکن اب ایرانی قوم اپنے مفاد میں اُمیدواروں کا انتخاب کرتی ہے، جو اُمیدوار عوام کی اُمیدوں پر پورا نہیں اُترتا وہ انتخاب ہار جاتا ہے۔
ایرانی پارلیمنٹ جسے آئینی طور پر مجلس شوریٰ اسلامی کہا جاتا ہے، اس وقت 290 اراکین پر مشتمل ہے، جس کی ابتدائی تعداد 270 تھی نئی مردم شماری کے بعد سنہ 2000ء میں ایرانی پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد بڑھاکر 290 کی گئی تھی، ایرانی پارلیمنٹ وسیع اختیارات کی حامل ہے جو آئینی فریم ورک میں ہر قسم کی قانون سازی کا اختیار رکھنے کے علاوہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کو منظور یا منسوخ کرنے کا اختیار رکھتی ہے، حکومت کے نامزد وزراء کی منظوری دینے یا مسترد کرنے کا اختیار بھی ایرانی پارلیمنٹ کو ہے ایران کا صدارتی طرز حکومت ہے لہذا حکومت سالانہ بجٹ تیار کرتی ہے اور اُسے پالیمنٹ کے حوالے کردیا جاتا ہے جس کی منظوری سے قبل بحث ہوتی ہے پارلیمنٹ بجٹ کی ترجیحات کو دیکھتی ہے اُس پر بحث کرتی ہے اور پھر جا کر بہت سے ترامیم کے بعد سالانہ بجٹ کو منظوری ملتی ہے، ایرانی پارلیمنٹ کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری عہدیدار کو پارلیمنٹ میں جوابدہی کیلئے طلب کرسکتی ہے چاہے اس کا تعلق سول سے ہو یا سکیورٹی اداروں سے ہو جبکہ ایرانی پارلیمنٹ کسی بھی سرکاری شخصیت یا ادارے کی کرپشن کی تحقیقات کا اختیار رکھتی ہے، ایرانی پارلیمنٹ میں بظاہر دو سیاسی قوتیں وجود رکھتی ہیں اصطلاحاً انہیں قدامت پسند اور اصلاح پسند کہا جاتا ہے، اِن سیاسی گروہوں کی تقسیم کی بنیاد صحت مندانہ سیاسی طرز عمل اختیار کرنا ہوتا ہے، قانون سازی کے موقع پر یا قومی موفق کے اظہار کے موقع پر عموماً اتحاد دیکھنے کو ملتا ہے، قدامت پسند اراکین کی قانونی مسوادے کو اصلاح پسند صرف اس لئے مسترد نہیں کرتے کہ یہ قدامت پسندوں کی پیش رفت ہے، اسی طرح بہت قوانین اصلاح پسند قدامت پسند ارکان کیساتھ ملکر منظور کراتے ہیں۔
یکم مارچ کو ہونے والے ایرانی پارلیمنٹ کے انتخابات میں قدامت پسندوں کی نمائندگی اسپیکر باقر قالیباف کررہے ہیں جبکہ اصلاح پسندوں کی نمائندگی وزیر ہاؤسنگ مہرداد بزرپاش کررہے ہیں، اگرچہ اس وقت پارلیمنٹ میں قدامت پسند گروہ کا راج ہے لیکن مستقبل کی ساخت اور حرکیات مختلف عوامل پر منحصر ہو سکتی ہیں، جس میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی منظر نامے کا اثر رائے عامہ پر اثرانداز ہوگا بالکل یہی عوامل مجلس خبرگان کے انتخابات کیلئے عوام کے پیش نظر ہیں، مختلف معتبر سرویز کے نتائج کا دقیق تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عوامی رائے عامہ گزشتہ دس سالوں میں بہت زیادہ تبدیل ہوچکی ہے، ایرانی معاشرے میں سیاسی آزادیوں کی گھٹن کو محسوس کیا جانے لگا ہے، میڈیا اپنی آزادی کیلئے سرگرم ہے، کورونا کے بعد کی دنیا میں ایرانی معاشرہ بھی اُسی طرح متاثر ہوا ہے جس طرح ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک، دنیا بھر میں منہگائی کی لہر نے غربت میں اضافہ کیا ہے جس نے ایرانیوں کو اچھا خاصہ متاثر کیا ہے تاہم ایرانی حکومت بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں خطے کے دیگر ملکوں سے بہت بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے، ایران کے معیشت اور سیاسی پر گہری نظر رکھنے والےایرانی مفکر مہدی روغی کا کہنا ہے کہ یکم مارچ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں موجودہ پارلیمنٹ کے اراکین کا عوام سخت محاسبہ کریں گے اور توقع کی جارہی ہے کہ نئی پارلیمنٹ خاصی تعداد نوجوان سیاستدانوں پر مشتمل ہوگی، اُن کا کہنا ہے کہ ایران کے سیاسی حالات بدل چکے ہیں اور وہ ایسی قیادت کی توقع کررہے ہیں جو کرپشن کو ختم کرئے اور معاشرتی مساوات کیلئے اقدامات کرئے، یہ مختصر تبصرہ ایران کی سیاست کو سمجھنے کیلئے اہم ہے، ایرانی پارلیمانی نتائج کا اعلان 2 مارچ سے سامنے آنا شروع ہوجائے گا، جس کے بعد واضح ہوگا کہ ایرانی سیاست کا رُخ کس طرف مائل ہے جو علاقائی سیاست پر بھی اثرانداز ہوگا، داخلی سطح پر مہنگائی، بے روزگاری، طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان، خاندانی نظام کی تباہی اور نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی جبکہ بین الاقوامی سطح پر غزہ پر اسرائیلی جارحیت، ایرانی گیس پائپ پر اسرائیلی حملے، بیرونی مدد سے ایران میں ہونے والی دہشت گردی، ایٹمی پروگرام کی تکمیل وہ مسائل ہیں جن کا سامنا منتخب ہونے والی نئی ایرانی پارلیمنٹ کو کرنا ہوگا۔
4 تبصرے
ایران میں انتخابات کنٹرول ہوتے ہیں مگر پاکستان کی طرح جعل سازی پر مبنی نہیں ہیں، ایران میں سیاسی پابندیاں ہیں پاکستان میں بھی سیاسی سرگرمیوں پر شدید قسم کی پابندیاں ہیں، وہاں بھی سیاسی قیدی ہیں پاکستان میں بھی دس ہزار سے زائد سیاسی قیدی ہیں، پاکستان میں ادارے عوام کو غائب کردیتے ہیں ایران میں ایسا نہیں ہوتا دونوں ملکوں میں ایک یہی فرق نمایاں ہے۔
iran mai political freedom nahi hai isee lia wahan ki aksirtey govt kay mamelat say la taaluq hai
Mubarak ho wahan election saaf saffaf hon gay
ایران میں جتنی جمہوریت ہے ایشیائی ملکوں کے بعض ملکوں سے بہت زیادہ ہے کنٹرول جمہوریت سے مادر پدر جمہوری آزادی سے بہتر ہے، پاکستان میں جو حال ہے جمہوریت کا وہ تو شمالی کوریا سے بھی بدتر ہے