تحریر: محمد رضا سید
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے آرمی چیف سے ملاقات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری اور علی امین گنڈاپور کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے، آرمی چیف کے سامنے پی ٹی آئی کے تمام مطالبات رکھے ہیں، دوسری جانب سے مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے، اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ میری اور علی امین گنڈاپور کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے، آرمی چیف کے سامنے پی ٹی آئی کے تمام مطالبات رکھے ہیں،اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مذاکرات خوش آئند ہیں، بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ آرمی چیف سے ملاقات پشاور میں ہوئی ہے، دوسری جانب سے مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے، پشاور میں بری فوج کے سربراہ کی مصروفیات کے بارے میں آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ آرمی چیف نے صوبہ خیبرپختونخواہ میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی خرابی کی وجوہات اور تحریک طالبان پاکستان کی سرحد پار سے دہشت گرد کارروائیوں کے سدباب سے متعلق وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ اور دیگر حکام سے مشاورت کیلئے پشاور گئے تھے لیکن صورتحال اب واضح ہوئی ہے کہ آرمی چیف جنرل منیر پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے وہاں پہنچے تھے، پاکستان تحریک انصاف کے بانی چئیرمین عمران خان روز اوّل سے کہتے آئے ہیں کہ پی ڈی ایم کی سابق حکومت، نگراں حکومت اور بعد ازاں رات کی تاریکی میں 8 فروری کے انتخابات کے نتائج میں ہیر پھیر کرکے لائی گئی ن لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کی اتحادی حکومت اس وقت پاکستانی فوج کی تابع مہمل کی حیثیت رکھتی ہے، طاقت کا منبع بری فوج کے سربراہ اور اُن کے مددگار چند جنرلز ہیں اور20 آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کے متفقہ آئین کا حلیہ آمرانہ بنادیا گیا ہے، اس صورتحال میں سیاسی حکومت کی نام نہاد حیثیت رہ گئی ہے جو عوام کی بھرپور سیاسی قوت رکھنے والی جماعت کو کچھ بھی دینے کی حیثیت نہیں رکھتی، اسی لئے پاکستان کے دہائیوں سے کلیدی حیثیت کے حامل رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے سامنے وہ مطالبات رکھے جائیں، جسے ہم تسلیم کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
معلوم ہوا ہے کہ پشاور کے علاوہ بھی فوج کے اعلیٰ افسران کیساتھ پی ٹی آئی کے مذاکرات ہوئے ہیں، اطلاعات ہیں کہ فوج کیساتھ مذاکرات میں کسی نہ کسی حیثیت میں سابق خاتون اوّل بھی شریک ہیں، پی ٹی آئی کے مقتدر ذرائع بتاتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان مذاکرات کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں اور وہ پاکستانی فوج کی اعلیٰ ترین قیادت کو کسی ناخوشگوار صورتحال دوچار کرنے کی حق میں نہیں ہیں، اسی لئے اُنھوں نے فوج اور اسکی تابع مہمل حکومت سے مذاکراتی عمل کے دوران 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے نتائج میں ہیرا پھیری کے معاملے کو بنیادی حیثیت دینے سے گریز کی پالیسی اختیار کی ہے اور ملک میں نئے انتخابات کیلئے حالات ساز گار بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے، عمران خان فوجی مداخلت کے بغیر نئے انتخابات کو پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کا واحد حل بھی سمجھتے ہیں، فوج کے سربراہ کے ساتھ پی ٹی آئی کے مذاکرات نیک شگون بنانے کیلئے دوطرفہ بنیادوں پرخیر سگالی کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، 2022ء میں عمران خان کی حکومت گرائے جانے کے بعد سے پاکستان کی بری فوج کے خلاف پلوں سے کافی پانی بہہ چکا ہے، اب اس پر بند باندھنے کی ضرورت ہے پاکستان کی فوج کو طاقتور کئے بغیر ملک کا دفاع ممکن نہیں ہے، یہ فوج کے حق میں ہے کہ وہ سیاست کی آلودگیوں کو اپنے سے دور رکھے اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرئے، پاکستان کو دہشت گردی کی سنگین صورتحال کا سامنا ہے، پاکستان کو مسلکی بنیادوں پر قتل و غارتگری کا سامنا ہے، یہ مسئلہ سب سے زیادہ توجہ کا طالب ہے، بدھ کو پاڑا چنار جانے والے امدادی قافلے پر ہونے والے حملے اور اُس کے بعد کی صورتحال بہت زیادہ سنگین ہے، جن افراد نےامدادی قافلے پر حملہ کیا اُن کے عزائم سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیوز میں سننے جاسکتے ہیں، یہ خیالات شدت پسند یہودیوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، جنکا اظہار وہ فلسطینیوں کیلئے امداد لے جانے والے قافلوں کو روکنے کے دوران کیا کرتے تھے۔
پاڑا چنار کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہورہا ہے اسے نظرانداز کرنا فوج اور حکومت کے بنیادی فرائض منصبی کے خلاف ہوگا، یہ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ ایک مسلک کے افراد کی نسل کشی کا مسئلہ ہے، بتایا جاتا ہے کہ اس خطے کے متعلق طاقتور حلقوں کے عزائم ہیں جو بین الاقوامی قوتوں سے منسلک ہوجاتے ہیں، فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات میں اس مسئلہ کو بھی رکھنا چاہیے کیونکہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اس قدر سیاسی استعداد رکھتی ہے اگر وہ چاہے تو پاڑا چنار میں شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل رک سکتا ہے۔