پاکستان کے سالانہ بجٹ میں تخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کی شرح بڑھانے پر مبینہ طور پر اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک کے درمیان اختلافات سامنے آگئے ہیں پرویز نے انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانےکے حق میں نہیں تھے جبکہ سیلز ٹیکس 18 فیصد سے بڑھانے پر وزیر اعظم نے اتفاق نہیں کیا تھا، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ہدایات دی تھیں کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس نہیں بڑھنا چاہیے، سب کو احساس ہے کہ کچھ عرصے سے ڈبل ڈیجٹ مہنگائی چل رہی ہے، تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو مد نظر رکھ کر یہ اقدامات کیے گیے اور کمزور ترین طبقے کو حکومت نے ریلیف دیا ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر فورم پر کم از کم تخواہ ادائیگی کو یقینی بنانے کا معاملہ اٹھاوں گا، حکومت کی جانب سے کم سے کم تنخواہ 37 ہزار کی گئی ہے، اس پر عمل نہیں ہوتا تو سخت کارروائی ہونی چاہیے، یہ انفورسمنٹ کا ایشو ہے، وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ سیلز ٹیکس18فیصد سے بڑھانے پر وزیر اعظم نے اتفاق نہیں کیا، مہنگائی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا تھا کہ مہنگائی بیماری کی علامات ہیں لیکن بیماری نہیں، مہنگائی بخار ہے مگر کینسر نہیں ہے، بیماری کا علاج کرنا ہوگا علامات کا نہیں، مہنگائی کے اسباب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے وفاقی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ظالمانہ قرار دیا ہے، اپٹما کے اعلامیے کے مطابق موجودہ حکومت کے ظالمانہ بجٹ سے ٹیکسٹائل سیکٹر تباہ ہوجائیگا جبکہ ملکی برآمدات میں بڑی کمی اور بے روزگاری بڑھے گی، برآمدات میں کمی سے بیرونی سیکٹر کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اپٹما کے مطابق بجٹ میں ملکی صنعتوں کو درپیش مسائل حل کرنے کا کوئی پلان نہیں، پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے بجلی کے نرخ ہمسایہ ممالک سے دوگنا ہیں، اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انڈسٹری پر کراس سبسڈی کا بوجھ 240 ارب روپے سے بڑھ کر 380 ارب روپے تک پہنچنے کا اندیشہ ہے، اپٹما نے حکومت سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بچانے کے لئے ہنگامی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔