تحریر: محمد رضا سید
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے ملک کے نظام انصاف کو پراگندہ کرنے کے حوالے سے خفیہ ادروں کی مذموم حرکتوں کا کیا پردہ چاک کیا کہ پورا نظام ہی متزلزل ہوکر رہ گیا، خط کے منظر عام پر آتے ہی رسکیو کی کوششیں شروع ہوگئیں خود جمہوریت کے حامی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف ظاہر کرنے والے چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس بلایا لیکن دوسرے ہی دن وہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کیساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ کرنے کے بعد ایک رکنی ریٹائرڈ جج کے ذریعے انکوئری کمیشن تشکیل دینے کے حکومتی منصوبے کو مان گئے، وہ تو اللہ بھلا کرئے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کا جو اپنا کاندھا استعمال کرنے کی کوشش کو پھانپ گئے اور اپنا کاندھا استعمال نہیں ہونے دیا، لامحالہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ازخود نوٹس لینا پڑا، گذشتہ کئی دنوں کے پیش آمدہ واقعات کو کوزے میں بند کرتے ہوئے بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ عوامی بیداری کے نتیجے میں پاکستانی عوام میں جو سوچ پیدا ہوئی ہے اس نے ہمارے بھولے بھالے چیف جسٹس کو کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے، بدھ کو ازخود نوٹس کی پہلی سماعت ہوئی جو مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار رہی، نامور صحافی اور وی لوگرز کو خبر نکالنے میں دقعت ہوئی وہ پریشانی کا شکار رہے کہ آج کی سماعت کی خبر کیا بنائیں، زیادہ تر خبریں تجزیہ اور تحلیل کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔
ملاحظہ فرمائیں ایک غیر ملکی میڈیا ہاؤس کی رپورننگ “چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کی سماعت کے لئے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا ہے، بدھ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ معاملے کی سماعت کے لئے دیگر ججز اسلام آباد میں موجود نہیں تھے اس لئے دستیاب ججز کی بنیاد پر بینچ بنایا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وقت کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں ہیں ممکن ہے کہ اگلی بار ہم سب ایک ساتھ بیٹھیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے خط کے معاملے میں ہر موڑ پر سنجیدگی ہے، وہ باقی ججز سے مشاورت کے بعد حتمی تاریخ بتا دیں گے بتائیں، صحافت کے بڑے ناموں میں سے کسی شخصیت کے پاس اس متن کو لے جائیں اور پوچھیں خبر کیا ہے، یہاں پر بچارے عاصم رانا کی صلاحتوں کا اعتراف کرنا پڑے گا، کتنی مشکل پیش آئی ہوگی انھیں خبر فائل کرتے وقت یہی حال باقی صحافیوں کا بھی ہوا ہوگا، سپریم کورٹ کے ججز اسلام آباد میں نہیں تھے تو سماعت کیوں رکھی اور سماعت ضروری تھی تو اسلام آباد سے باہر گئے محترم ججز کو واپس بلایا جاسکتا تھا، ذرا غور فرمائیں چیف جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے فل بیچ بنانے کا فیصلہ نہیں دیا بلکہ صرف فل عندیہ دیا ہے، اگلے جملے میں وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اگلی بار ہم سب ایک ساتھ بیٹھیں، عندیہ اور ممکن ہے جیسے الفاظ اس اہم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے استعمال کیا جانا بتارہا ہے کہ امکانی طور پر وہ فل بیج تشکیل دینے کا فیصلہ کرنے سے قبل فرشتوں سے مشاورت کرنا چاہتے۔
سپریم کورٹ کے روم نمبر ون میں اس اہم کیس کی سماعت کے دوران محترم چیف جسٹس نے وزیراعظم شہباز شریف سے اپنی ملاقات کی وضاحت دینا شروع کردی انہیں ہرگز وضاحت دینے کی ضرورت نہیں تھی، ملک بحرانی کیفیت کا شکار ہے معاملہ پاکستان کے نظام انصاف پر حملے کا ہے، من پسند فیصلے لینا مہذب معاشروں کیلئے تباہ کُن سمجھا جاتا اور پھر اس کیلئے ججز کو اذیت سے گزارنا یہ تو قابل گرفت بات ہے، اس کیلئے وزیراعظم شہباز شریف سے مشاورت کرنا کوئی عیب نہیں تھا، اس کیس میں ججز نے جس خفیہ ادارے کی نشاندہی کی ہے وہ براہ راست وزیراعظم نے نیچے آتا ہے اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اہمیت کا حامل ادارہ ہے، اس ادارے سے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو شکایت ہے اور ادارہ نظام انصاف کو مذموم بنارہا ہے تو اس کی وزیراعظم سے شکایت نہ کی جائے تو کس سے کی جائے، بس غلطی یہ ہے کہ شکایت کا ازالہ کرنے کے بجائے انکوائری کمیشن تشکیل دینا مناسب نہیں تھا، اعلیٰ عدلیہ کے چھ معزز ججز خط لکھ رہے ہیں کسی عام آدمی کی شکایت نہیں ہے ججز کو شکایتیں ہیں اور ابھی سے نہیں کافی عرصہ سے شکایت ہے یقیناً ازالے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہونے پر ہی ججز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، یہ سب عام سی باتیں ہیں، معلوم نہیں چیف جسٹس صاحب کو عام باتیں کیوں سمجھ نہیں آتیں ہیں، وہ عام لوگوں کی باتیں سنتے بھی نہیں ہیں اور ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھتے بھی نہیں ہیں البتہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک غلط خبر کا سماعت کے دوران تذکرہ کردیا۔
پاکستان کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز افراد ہوں یا رشور لینے والا کوئی سرکاری اہلکار سب کو سوشل میڈیا سے بیزاری ہے، کوئی ایسے شیطان سے تعبیر کرتا ہے تو کوئی ہماری مشرقی تہذیب کو بگاڑنے کا سبب گردانتا ہے، بڑی کرسیوں پر بیٹھے لوگ سوشل میڈیا کے خلاف قوم کو لیکچر دیتے وقت ہیں عصر حاضر کی ضرورتوں کا خیال رکھیں ملک میں آئی ٹی صنعت کا ڈھانچہ بنانے کیلئے بجٹ میں رقوم مختص کی گئیں ہیں اگر سوشل میڈیا اتنا بڑا ہے تو سب سے پہلے حکومت توبہ کرئے، جس کے وزیر وی پی این لگاکر ایکس کو استعمال کرتے ہیں، اگر وی پی این کے ذریعے ایکس چل رہا ہے تو بند کیوں کیا گیا ہے، پاکستان کے صاحب اقتدار اپنے ناز و انداز کو دیکھیں وہ کیا کررہے ہیں، ملک معاشی مشکلات سے دوچار ہے وفاقی وزیر خواجہ آصف کہتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے، ہمیں ابھی تک معلوم نہیں کہ آئی ایم ایف ہمیں 6 یا 7 بلین ڈالر کا قرضہ دے گا یا نہیں، اگر آئی ایم ایف نہیں دیتا تو پھر کیا ہوگا، اہم منصبوں پر فائز افراد کو اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے ، سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور دیگر سطح کی عدالتوں کو پاکستانی شہریوں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے آزاد چھوڑ دیا دیں یقین جانے پاکستان مضبوط ہوگا، نظام انصاف مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا۔