تحریر: محمد رضا سید
امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں اسرائیل اور لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی بدھ کو مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بجے نافذ العمل ہوگئی ہے، اس سے قبل اسرائیل اور حزب اللہ نے ایک دوسرے پر سنگین حملے کئے، حزب اللہ نے ایک ہی دن میں اسرائیل کے 22 فوجیوں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کیا جبکہ اسرائیلی فضائیہ نے لبنان بھر میں عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور درجنوں شہری شہید ہوگئے، حزب اللہ نے گزشتہ تین روز میں اسرائیل بھر میں اہداف پر تابڑتوڑ حملے کئے جس کے بعداسرائیل میں عمومی خوف و ہراس بڑھ گیا، فریقین کے درمیان میں جنگ بندی کے ابتدائی گھنٹوں میں خلاف وریوں کی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں تاہم حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ایک کمزور دھاگے سے بھی زیادہ کمزور ہے، اسرائیل نے ابتدائی طور پر جنگ بندی کی جو شرائط پیش کیں تھیں اُسے حزب اللہ جیسے طاقتور فریق کیلئے تسلیم کرنا مشکل تھیں، اسرائیلی شرائط کو تسلیم کرنے سے لبنان کی آزادی اور خود مختاری کو تل ابیب کے پاس گروی ہوتی اور وہ جب چاہتا گولان پہاڑیوں کی طرح لبنان کو ہڑپ کرجاتا اور لبنان کو اتنی خودمختاری بھی نہیں دی جارہی تھی جتنی اردن کو حاصل ہے جبکہ حزب اللہ کے کردار کو مکمل طور پر ختم کیا جارہا تھا مگر اسرائیل کی طاقت کا غرور اُس وقت ٹوٹا جب حزب اللہ نے اسرائیل بھر میں اہداف کو نشانہ بنایا اور اسرائیل فوج پر ایسی ضربیں لگائیں جس نے تل ابیب کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
حزب اللہ دراصل لبنان کی دفاعی لائن ہےاور ازادی و خود مختاری کی ضمانت ہے اور لاکھ اندرونی اختلافات کے باوجود حکومت ، فوج اور تمام شہری اس حقیقت سے واقف ہیں، حزب اللہ نے اپنے قیام کے بعد سے اسرائیل کو لبنان کی جغرافیائی حیثیت کو تسلیم کرایا 2006ء کی 36 روزہ جنگ میں اسرائیل کو لبنانی حدود کو چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور وقتاً فوقتاً اسرائیل کو باور کرایا کہ لبنان اُس کیلئے تر نوالہ نہیں ہے، یہ الگ بات آزادی اور خودمختاری کی خاطرلبنانی عوام کو بڑی قیمت چکانا پڑی ہے، جنگ بندی معاہدہ 60 روز تک نافذ العمل ہوگا اور اس کی بنیاد اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1701 ہے، اسرائیل کی فوج جنوبی لبنان کے سرحدی علاقوں سے مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائے گی، جب کہ حزب اللہ اپنے بھاری ہتھیاروں کیساتھ دریائے لیتانی کے شمال کی طرف چلی جائے جائےگی جہاں وہ 8 اکتوبر 2023ء سے قبل موجود تھی جو سرحد کے تقریباً 16 میل (25 کلومیٹر) شمال میں ہے، 60 دن کے اندر دونوں فریقین کی افواج کی منتقلی کے مرحلے کے بعد دیرینہ سرحدی تنازعات پر بات کی جائے گی ، اس دوران لبنانی فوج اقوام متحدہ کی امن فوج کے ساتھ ملکر بفر بارڈر زون میں دوبارہ تعینات کردی جائے گی ۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان آویچے ایدیری نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیلی فوجی( خود ساختہ سرحدی علاقے جو فلسطینی علاقوں پر قبضے کے بعد وجود میں ائی ہیں)موجود رہیگی جبکہ حزب اللہ کے دریائے لیتانی کے شمال کی طرف چلے جانے کے باوجود شمال میں یہودی آبادکاروں پر راکٹ فائر نگ کا خطرہ موجود ہے لہذا اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں کے یہودی آبادکاروں کو خبردار کیا گیا ہے کہ ان کا واپس آنا ابھی محفوظ نہیں ہے، حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان مسلح تصادم اکتوبر 2023 ءمیں اُس شروع ہوا، جب فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نےغاصب حکومت کی بنائی ہوئی سرحد پار کرکے اسرائیلی علاقوں میں کارروائی کی ، جس میں راکٹ اور مارٹر گولے کے ذریعے اسرائیلی فوج اور مسلح یہودی آبادکاروں کا جانی و مالی نقصان کرنے کے علاوہ اسرائیلیوں کو قیدی بنالیا جو ابتک حماس کی قید میں ہیں حزب اللہ کا کہنا ہے کہ جبتک اسرائیل غزہ میں جنگ بند نہیں کرتا اور فوجیں واپس نہیں بلاتا وہ اسرائیل کو چین سے بیٹھنے نہیں دے گا۔
اسرائیل نے اکتوبر 2024کے اوائل میں جنوبی لبنان پر حملہ کیا اور بیروت اور دیگر شہروں پر فضائی حملے تیز کر دیئے، اس دوران اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ اور اِن کے چند اہم کمانڈرز کو شہید کرکے اپنی عوام اور دنیا بھر میں پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ اُس نے مزاحمتی تحریک کی کمر توڑ دی ہے مگر حقیقیت اس کے برعکس نکلی اور اسرائیل کو پر جارحیت کا منہ توڑ جواب ملا اور رفتہ رفتہ اسرائیل اور اُس کے سرپرستوں امریکہ، جرمنی اور فرانس کو یقین ہوگیا کہ وہ حزب اللہ کو ختم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں اور لاچارگی کی صورتحال میں جنگ بندی کیلئے تیار ہوئے لیکن حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا سوال ابھی بھی موجود ہے تو کیا حزب اللہ بدھ کی صبح سے نافذ العمل جنگ بندی کے بعد حماس کی مدد سے دستبردار ہوجائے گی، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں اس مسئلہ کو زیر بحث لایا ہی نہیں گیا جو خطے میں مزاحمتی تحریکوں کی اہم کامیابی ہے، اسرائیل کو اپنے شمال میں یہودی آباد کاروں کو واپس لانے کیلئے حماس کیساتھ جنگ بندی کرنا ہوگی ورنہ ایک بار پھر اسرائیل کو چومکھی جنگ لڑنا ہوگی۔
اسرائیل کے جنگی جرائم کے مرتکب وزیراعظم نتین یاہو نے حزب اللہ کیساتھ جنگ بندی معاہدہ کرنے سے قبل قوم سے خطاب میں حزب اللہ کے خلاف اپنی کامیابیوں کا پنڈورا بکس کھولا مگر اسرائیلی شہری حقیقت سے واقف ہیں کہ اسرائیل نے شکست خوردہ فریق کی حیثیت سے جنگ بندی معاہدہ کیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل واشنگٹن کی طرف سے انتباہ کے بعد جنگ بندی کیلئے تیار ہوا ہے کیونکہ امریکہ نے واضح اشارہ کردیا تھا کہ تل ابیب نے جنگ بندی پر رضامندی نہیں دکھائی تو امریکہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد کو ویٹو نہیں کرئے ، جو اسرائیل کے لئے ناسازگار حالات میں جنگ بندی نافذ کرے گی۔