تحریر: محمد رضا سید
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 5 دسمبر کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ کافی شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر اپنی جنگ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کر رہا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کافی بنیادیں ملی ہیں کہ اسرائیل نے مقبوضہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا ارتکاب کیا ہے اور وہ جاری رکھے ہوئے ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ رپورٹ اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ اسرائیل نے نسل کشی کنونشن کے تحت ممنوعہ اعمال کا ارتکاب کیا ہے، ان کارروائیوں میں قتل کرنا، شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا، اور جان بوجھ کر غزہ میں فلسطینیوں کو ان کی جسمانی تباہی کے لیے زندگی کے حالات کا سامنا کرنا شامل ہے۔ مہینوں کے بعد، اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ انسانی حقوق اور وقار کیلئے ایک غیر انسانی گروہ کے طور پر برتاؤ کیا ہے، جو انہیں جسمانی طور پر تباہ کرنے کے اپنے ارادے کو ظاہر کرتا ہے، رپورٹ میں شمالی غزہ کی صورتحال کو نوٹ کیا گیا ہے، جہاں محصور فلسطینی آبادی کو مسلسل نقل مکانی اور مسلسل حملوں کے ساتھ ساتھ بھوک اور امداد کی شدید پابندی کا سامنا ہے، اسرائیل نے متعدد بین الاقوامی انتباہات اور بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے تین قانونی طور پر پابند فیصلوں کو بار بار نظر انداز کیا اور نظر انداز کیا ہے جس میں اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے فوری کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے اقدامات کی مسلسل تکرار، اسرائیلی حکام کے عوامی بیانات ہلاکتوں کی تعداد اور جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہونے والی تباہی سب کچھ نسل کشی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اگنیس کالمارڈ نے کہا کہ بے دخلی، نسل پرستی، اور غیر قانونی فوجی قبضے کے پہلے سے موجود سیاق و سباق کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں یہ کارروائیاں کی گئی ہیں، ہم صرف ایک ہی معقول نتیجہ نکال سکتے ہیں: اسرائیل کا ارادہ غزہ میں فلسطینیوں کی جسمانی تباہی ہے، حکومتی عہدیداروں کے متعدد بیانات جو کہ نسل کشی کے واضح ارادے کو ظاہر کرتے ہیں گزشتہ سال کے دوران ریکارڈ کیے گئے ہیں، اسرائیل کے وزیر تعلیم یوو کیش نے گزشتہ سال اکتوبر میں کہا تھا کہ جب تک ہم لاکھوں لوگوں کو غزہ سے فرار ہوتے نہیں دیکھتے ہیں، آئی ڈی ایف نے اپنا مشن پورا نہیں کیا ہے کم از کم 100,000 فلسطینیوں کو اب شمالی غزہ سے اسرائیل کے جنرلز پلان کے غیر سرکاری نفاذ کے ایک حصے کے طور پر بے دخل کیا گیا ہے جس کا مقصد پٹی کے شمال میں باقی رہ جانے والوں کو مارنا یا بے دخل کرنا ہے۔ شمالی غزہ ناقابل رہائش بن چکا ہے۔
اسرائیلی فوجیوں نے 4 دسمبر کو غزہ کے شمالی شہر بیت لاہیہ میں آخری پناہ گاہوں سے ہزاروں فلسطینی شہریوں کو زبردستی بے گھر کر دیا، اسرائیل بھی پوری پٹی میں وحشیانہ قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ بدھ کے روز جنوبی غزہ میں خان یونس شہر کے مغرب میں المواسی ’سیف زون‘ کے علاقے پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 20 فلسطینی ہلاک ہو گئے، پوری جنگ کے دوران، اسرائیلی افواج نے خود کو جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے اور غزہ کے لوگوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فلمایا ہے، اسرائیل کی 601 ویں کامبیٹ انجینئرنگ بٹالین آساف کے اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کی نسل کشی کے دوران وسطی غزہ کی پٹی کے علاقوں میں بے گھر فلسطینیوں کے گھروں اور مساجد کو دھماکوں کی دستاویز اور پوسٹ کیا، اسرائیلی حراستی مراکز کے اندر غزہ سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں پر تشدد اور جنسی حملوں کی مکمل دستاویزی دستاویز کی گئی ہے۔
دوسری طرف حزب اللہ کیساتھ جنگ بندی کرنے کے باوجود اسرائیل نے لبنان کے سرحدی علاقوں میں 60 سے زائد مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے تاہم حزب اللہ نے اسکا بھرپور جواب دیا ہے، اسرائیل نے جس مجبوری اور سوختہ دل کیساتھ حزب اللہ سے جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے لیکن غاصب ریاست اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ پسندی سے باز آنے والے نہیں ہیں، اُن کا مقصد ہٹلر سے ملتا جلتا ہے وہ بھی یہودیت کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کا سبب بن رہے ہیں، حالیہ ہفتوں میں عالمی سطح پر یہودی برادریوں اور اُن کی عبادت گاہوں پر دشمنی پر مبنی واقعات اور حملوں میں پریشان کن اضافہ دیکھا گیا ہے، رواں سال امریکہ میں یہودیوں پر دشمنی پر مبنی واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اینٹی ڈیفی میشن لیگ نے توڑ پھوڑ، ہراساں کرنے اور جسمانی حملوں کے 2,000 سے زیادہ واقعات رپورٹ کیے ہیں، ان میں سے بہت سے واقعات یہودی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ ا کے ریکارڈ ہوئے ہیں، جمعہ کی صبح میلبورن کی یہودی عبادت گاہ پر آتشزدگی کاحملے ہوا، اس حملے کے بعد آسٹریلیا وزیر اعظم انتھونی البانی نے عہد کیا کہ وہ ضدصیہونیت سے نمٹنے کے لئے مزید اقدامات کرینگے، آسٹریلیا کے وزیراعظم نے عالمی رہنماؤں سے دنیا بھر میں یہودی مخالف نسل پرستی کے ناقابل برداشت عروج کا مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ایسے اقدامات چاہے کسی بھی مکتبہ فکر کے پیروکاروں کی طرف سے ہوں ناپسندیدہ فعل ہی قرار دیا جائے گا مگر یہ صورتحال نتین یاہو کی جنگ پسند پالیسیاں ہیں جو غزہ کے علاوہ لبنان میں ہزاروں بیگناہ شہریوں کو اپنی نسل کشی پر مبنی جنگ میں قتل کراچکے ہیں، غاصب ریاست کے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جس طرح شام میں دہشت گردی کی مدد کررہے ہیں وہ شام میں موجود یہودیوں کی بڑی تعداد کو مشکلات کا شکار بنانے کے ذمہ دار ہیں جن کی بڑی تعداد ادلیب میں قیام پذیر ہیں جہاں اسرائیل کے حمایت یافتہ دہشت گرد بیگناہ شامی شہریوں اور فوجیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں کسی وقت بھی شامی شہری دہشت گردی کی اسرائیلی سرپرستی کی وجہ سے اپنے غصّےکا اظہار کرتے ہوئے ناپسندیدہ اقدام کر گزریں جو اسلام کی عظیم تعلیمات کے خلاف ہوگا۔
تمام عالمی اداروں کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کو اُجاگر کررہے ہیں، اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیلی فوج ملوث ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ کو فلسطینیوں کی نسل کشی نظر نہیں آتی کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ سفاکیت اور قتل عام میں خود ملوث ہے۔