سنی اتحاد کونسل/پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ معاملے کی سماعت کررہا ہے، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں، کیس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی تھی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنے کا کہا گیا تھا، کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا، سلمان اکرم راجا نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی، فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، اسی لئے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے پہلے فہرست جمع نہیں کرائی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اپنی یہ بات ایک بار دہرا دیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جی اس میں کوئی تنازع نہیں ہے سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ تنازع کی بات کیوں کر رہے ہیں، بس کہیں الیکشن نہیں لڑا فل سٹاپ، فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ جب سنی اتحاد کونسل نے ریزرو سیٹوں کے لئے درخواست دی تو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اضافی مخصوص نشستوں کے لئے درخواست دے دی۔
الیکشن کمیشن نے دیگر جماعتوں کی درخواست منظور کی جس کو پشاور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان ایک تفریق ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا ’کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے، چیف جسٹس نے پوچھا آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے، آزاد امید واروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کیخلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیرمتعلقہ ہے، مناسب ہوگا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا، ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔