فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کی پٹی میں مکمل جنگ بندی کی تجویز کے حوالے سے توقع کر رہی ہے کہ جلد اس پر اسرائیل کا جواب سامنے آ جائے گا، حماس نے کہا کہ وہ موجودہ وقت میں مجوزہ معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کرے گی، حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے ایجنسی فرانس پریس کو بتایا کہ ہم ان خیالات کی تفصیلات کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے اور جواب کا انتظار کر رہے ہیں جو غالباً آج یا کل آ جائے گا، اسامہ حمدان نے یہ بھی وضاحت کی اگر جواب مثبت ہوا تو ان خیالات پر تفصیل سے بات کی جائے گی کیونکہ ہم ان نظریات کے نفاذ کے مرحلے میں داخل ہوں گے اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، اسامہ حمدان نے کہا یہ کوئی نئی تجویز نہیں تھی لیکن کچھ خاص نکات تھے جن پر بات کی گئی تھی، ہم کسی نئی تجویز یا کسی نئی چیز کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ وہی کاغذ ہے جو منظور کیا گیا تھا اور اسرائیلی فریق نے اس پر اعتراض کیا تھا، واضح رہے کہ اسرائیلی فوج کے سربراہاں نے غاصب حکومت کو بتایا ہے کہ حماس کو ختم نہیں کیا جاسکتا جبکہ اسرائیلی فوج کے ستر ہزار افراد ذہنی مریض بن کر جنگ لڑنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔
حماس رہنما نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ امریکی انتظامیہ کا موقف اسرائیلی فریق کو ان نظریات کو قبول کرنے میں مضبوط رہے گا اور اس طرح جنگ روک دی جائے گی، دریں اثنا اسرائیلی موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا جمعہ کو قطری ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے بعد دوحہ سے واپس روانہ ہو گئے، اس بات چیت میں غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے منصوبے پر بات ہوئی، ایک اہم ذریعے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈیوڈ برنیا کی سربراہی میں ایک اسرائیلی وفد غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے قطری ثالثوں سے ملاقاتوں کے بعد دوحہ سے اسرائیل کے لئے روانہ ہوا، دوسری طرف اسرائیلی نیوز چینل 12 نے رپورٹ کیا کہ موساد کے وفد نے ثالثوں سے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نیتن یاہو حکومت معاہدے کی تجویز کو منظور کر لے گی۔