انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ملک میں گزشتہ 2 سال کے دوران اظہار رائے کی آزادی کی صورتحال پر اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے، سوشل میڈیا جو اختلاف رائے کا ایک پلیٹ فارم ہے، ریاست کی طرف سے جبر اور قانونی ترامیم کا نشانہ بن رہا ہے، جیسے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) میں کی گئی ترامیم جس نے کارکنوں اور ڈیجیٹل اثر و رسوخ رکھنے والوں کی نگرانی اور جانچ پڑتال میں اضافہ کردیا ہے، جس سے تنقیدی آوازوں کو مؤثر طریقے سے خاموش کیا گیا، 2022ء میں کینیا میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے صحافی ارشد شریف کا قتل ایک اہم موڑ بن گیا تھا، نیوز رومز خوف کی لپیٹ میں تھے اور صحافی خود کو نشانہ بننے سے بچانے کے لئے سیلف سنسرشپ کا سہارا لے رہے تھے، ایک ساتھی نے خوف کے ماحول کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد کی لاش کو دیکھ کر میڈیا میں خاموشی اور سنسر شپ کا آغاز کردیا گیا، رپورٹ میں پاکستان میں سینسرشپ کی متضاد نوعیت کو اجاگر کیا گیا اور بہت سی آوازوں کو خاموش کرا دیا گیا جبکہ ریاستی مفادات سے وابستہ افراد کو آزادانہ طور پر اجازت دی گئی، یہ دوہراپن ایک سلیکٹڈ کریک ڈاؤن کی عکاسی کرتا ہے، جابرانہ ماحول کے باوجود ایچ آر سی پی امید کی کرن کو نوٹ کرتا ہے، سوشل میڈیا کی پاکستانی اداروں کی جانب سے اگرچہ بہت زیادہ نگرانی کی جاتی ہے تاہم یہ مزاحمت کے لئے ایک جگہ کے طور پر کام کررہا ہے، سینسرشپ کے خلاف عوامی رد عمل میں اضافہ ہو رہا ہے، شہریوں نے شفافیت اور احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ میں نئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ابھرنے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جو روایتی میڈیا کو دبانے کے ممکنہ توازن کے طور پر ہیں تاہم روایتی میڈیا میں اعتماد کی کمی کا فائدہ مختلف مفاداتی گروہوں بشمول بڑے کاروباری اداروں، انتہائی دائیں بازو اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اٹھایا ہے، ایچ آر سی پی نے متنبہ کیا کہ آوازوں کو منتخب طور پر خاموش کرنے سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہوگی، بلکہ اداروں پر عوام کا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا، رپورٹ میں اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ایک جمہوری معاشرے کی بقا کا انحصار اس کے شہریوں کی آزادانہ طور پر بولنے کی صلاحیت پر ہوگا۔