پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پیر کی صبح پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقے مں انٹیلی جنس بیس انسداد دہشت گردی آپریشنز کئے ہیں، وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس آپریشن کا ہدف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک دہشت گرد تھے، یہ گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گرد حملے کررہا ہے، ان حملوں میں سینکڑوں شہری اور قسکیورٹی حکام شہید ہوئے ہیں، تازہ ترین حملہ 16 مارچ 2024 کو شمالی وزیرستان میں میر علی میں ایک سکیورٹی پوسٹ پر ہوا اور اس میں دو افسران سمیت پانچ پاکستانی فوجیوں کی جانیں گئیں، قبل ازیں پاکستانی فوج نے کہا کہ ملک میں عسکریت پسندی کی حالیہ لہر کو افغانستان کی بھرپور حمایت اور معاونت حاصل ہے، جس سے افغان طالبان انکار بھی نہیں کرتے، پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدیں جو افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں محفوظ نہیں رہی ہیں، پاکستان اور ایران ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کیلئے پالتے ہیں، سرحدوں پر خراب حالات کے باوجود انٹیلی جنس ادارے اپنی بنیاسی ذمہ داریوں کے بجائے سیاسی اُمور میں مداخلت کرتے ہیں۔
سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کی جانب سے پاکستان فوج کے ترجمان کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ بات سب پر واضح ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کو افغانستان کی بھرپور حمایت اور معاونت حاصل ہے، افغان طالبان کی مدد اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، پاکستان فوج کے بیان سے کئی گھنٹے قبل طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ اسلام آباد نے افغانستان کے پکتیکا اور خوست صوبوں میں فضائی حملے کئے ہیں جن کے نتیجے میں پانچ خواتین اور تین بچے ہلاک ہو گئے ہیں، افغان طالبان کے حکام نے اسلام آباد کو خبردار کیا ہے افغان سرزمین پر حملوں کے سنگین نکل سکتے ہیں، کابل کا یہ بیان مشرقی افغانستان میں پاکستان کے فضائی حملے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں پانچ خواتین اور تین بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے، افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں جو پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہوں گے۔