انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے پاکستان میں گزشتہ 2 سال کے دوران اظہار رائے کی آزادی کی صورتحال پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ موجودہ نظام حکمرانی کے ناقد میڈیا اداروں پر پابندیاں سخت کردی گئیں ہیں، صحافی ماہم مہر کی تحقیق اور تحریر کردہ اس رپورٹ میں اپریل 2022ء میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد سے آزادی اظہار کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے، ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میڈیا کے کچھ حصوں پر پابندیاں سخت کی گئی ہیں اور دوسروں کے لئے پہلے سے سخت پابندیاں عائد ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک صحافی کے قتل اور دوسروں کی جبری گمشدگی سے لے کر سرد مہری، سوچے سمجھے پریس ایڈوائس اور ڈیجیٹل آزادیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون میں تبدیلیوں کی بھرمار پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ موجودہ حکمراں طبقہ میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کررہا ہے جبکہ ریاست کی طاقتور افراد سنسرشپ کی سطح میں اضافہ کررہے ہیں لیکن ڈیجیٹل شعبے میں اظہار رائے کے لئے نئی جگہیں ابھر رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ روایتی میڈیا پر اعتماد میں کمی کا فائدہ بڑے کاروباری اداروں، انتہائی دائیں بازو اور اسٹیبلشمنٹ نے اٹھایا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنسرشپ کا منفی نتیجہ قومی مسائل پر حکمراں طبقے کی پالیسیوں اور سوچ سے اختلاف کو سرے سے ختم کرنا ہے، اس طرح عوام کی آزادانہ اظہار رائے پر روک لگانا ہے۔
سخت سزا کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ایک ایسے پاکستان میں میڈیا کے مستقبل کی خوفناک تصویر پیش کی گئی ہے، جہاں قانونی، ادارہ جاتی اور خفیہ دباؤ کی وجہ سے اظہار رائے کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے، عمران خان کی برطرفی سے اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا جس میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں اور ٹارگٹڈ سنسرشپ شامل ہیں، ان اقدامات نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں میڈیا کے منظر نامے پر خوف اور جبر کا غلبہ ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے خطرناک نتائج میں سے ایک سافٹ ویئر اپ ڈیٹس کا عروج ہے جو صحافیوں اور کارکنوں کے اغوا، پوچھ گچھ اور جبری تعمیل کے لئے استعمال ہونے والا لفظ ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اپ ڈیٹس کے نتیجے میں اکثر جبری اعترافات کیے جاتے ہیں اور میڈیا پروفیشنلز کو ان کے کردار سے دور رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ آزادانہ طور پر اپنا کام جاری رکھنے سے قاصر رہتے ہیں، 2024ء کے عام انتخابات سے قبل میڈیا کوریج کو غیر معمولی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے مطابق صحافیوں کو واضح طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ وہ عمران خان یا ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا نام لینے سے گریز کریں، نیوز روم کے ایک ملازم نے 3 منٹ تک جاری رہنے والی ایک ملاقات کا ذکر کیا، جس میں ریاستی نمائندوں نے حکم دیا کہ عمران خان کا نام آن ایئر نہیں کیا جائے گا۔