امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام غیر ملکی امدادی پروگراموں کو 90 دن کے لئے معطل کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیئے ہیں، اس عرصے کے دوران اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا یہ پروگرام ملک کے سیاسی مقاصد کو پورا کرتے ہیں، اس کے باوجود یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ اس ایگزیکٹو آرڈر سے کتنی امداد میں کٹوتی کی جائے گی کیونکہ کانگریس نے پہلے ہی بہت سے پروگراموں کے لئے فنڈنگ کی منظوری دے دی ہے، جو فنڈز ضائع نہ ہونے کی صورت میں مختص کیے جائیں، ٹرمپ کے دستخط شدہ ایگزیکٹو آرڈر میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی امداد کا طریقہ کار امریکی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور بہت سے معاملات میں امریکی اقدار کے منافی ہیں، مسٹر ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ سے مزید کوئی غیر ملکی امداد اس انداز میں نہیں دی جائے گی جو ریاستہائے متحدہ کے صدر کی خارجہ پالیسی سے پوری طرح ہم آہنگ نہ ہو، پچھلے ہفتے سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے اپنی تصدیقی سماعت کے موقع پر سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ ہم جو بھی ڈالر خرچ کرتے ہیں، ہر پروگرام جس کو ہم فنڈ دیتے ہیں اور ہر پالیسی جس پر ہم عمل کرتے ہیں، اس کا جواز تین آسان سوالوں کے جواب سے ہونا چاہیے، کیا یہ امداد امریکہ کو محفوظ بناتی ہے؟ کیا یہ امریکہ کو مضبوط بناتی ہے؟ کیا یہ امداد امریکہ کو مزید خوشحال بناتا ہے۔
دوسری طرف ریاستہائے متحدہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ وہ چین سے درآمدات پر 10 فیصد ٹیرف لگانے پر غور کر رہے ہیں، جو یکم فروری سے قبل نافذ ہو سکتا ہے، اسے چین کے خلاف ٹرمپ کا تازہ ترین تجارتی حملہ قرار دیا گیا ہے، جو امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے اور واشنگٹن کے سب سے بڑے جیو پولیٹیکل حریف بھی ہے، ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ وہ یورپ، کینیڈا اور چین سے ہونے والی تجارت پر نئے ٹیرف نافذ کئے جائیں گے، ٹرمپ نے چینی اشیاء پر 60 فیصد تک ٹیرف لگانے کی دھمکی دی ہے، جس سے تجارتی جنگ میں شدت آنے کا امکان ہے جوکہ مجوزہ محصولات کا مقصد چینی برآمدات کو نقصان پہنچانا تھا تاکہ ان کے تجارتی تعلقات میں امریکی مفادات کو آگے بڑھایا جا سکے، ٹرمپ کی دھمکیوں کا اب تک کم از کم اس کے برعکس اثر نظر آتا ہے، حالیہ مہینوں میں امریکہ سمیت چین کی مجموعی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے تو ٹرمپ چین کو ٹیرف کی دھمکیاں کیوں دے رہا ہے، چینی برآمدات اب بھی کیسے بڑھ رہی ہیں، اور ان کی تجارتی کشمکش میں آگے کیا ہے؟