تحریر : محمد رضا سید
پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈز (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے لئے درکار بیرونی مالیاتی فرق کو پورا کرنے کے لئے سعودی عرب سے قرضہ کی ادائیگی موخر کرنے کی درخواست کردی ہے، پاکستان نے مبینہ طور پر سعودی عرب سے اپنے موجودہ 5 ارب ڈالرز کے پورٹ فولیو میں ایک ارب 50 کروڑ ڈالرز قرض کی ادائیگی موخر کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈز کے 37 ماہ کے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لئے ضروری بیرونی مالیاتی فرق کم کرنے میں مدد ملے گی جبکہ یہ پیکج آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری تک زیر التوا ہے، یاد رہے پاکستان کے وزیراعظم اور آرمی چیف عاصم منیر نے اپنے دورہ چین کے دوران اپنے ہم مناصب سے چینی قرضہ موخر کرنے کی درخواست کی تھی مگر چینی قیادت کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے پر بحالت مجبوری سعودی عرب سے 1.5 ارب ڈالر کا قرضہ موخر کرنے کی درخواست کی ہے، اس سے قبل سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان کیلئے کسی بھی امداد کو ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا کرنے سے مشروط کیا تھا، واضح رہے کہ پاکستان میں عمران خان کی رجیم چیچ منصوبے کے تحت فوج کے بعض جنرلز کے ذریعے پی ڈی ایم کو برسراقتدار لانے کے بعد سے پاکستان کی معیشت کو سیاسی عدم استحکام اور بدانتظامی کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے، پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں ہوشرُبا اضافہ نے پاکستان کی صنعتی ترقی کو شدید دھچکا پہنچا ہے، برآمدات میں کمی اور ڈالر کی قیمت کو جبر اور مصنوعی طریقوں سے کنٹرول نے صورتحال مزید خراب کردی ہے، بیرونی ادائیگیوں کے سر پر آنے سے پاکستان کے معاشی منتظمین حالت اصطرار میں ہیں واضح پاکستان کو رواں مالی سال کے اختتام تک کم و بیش 20 ارب ڈالر قرض و سود کی شکل میں ادا کرنا ہے، گزشتہ ایک سال قبل پاکستان کے نئے نئے آئے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے نوید سنائی تھی کہ ایک سال کے اندر وہ اور اُن کی حمایت یافتہ حکومت 100 ارب ڈالر پاکستان لائے گی مگر افسوس ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہ معاشی اُمور کا تجربہ نہیں رکھتے تھے اور شاید اُنھوں نے پاکستان کی بیوروکریسی اور سیاسی یتمیوں پر انحصار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا، حقیقتاً پاکستان معاشی طور پر مشکلات نہیں ناقابلِ حل صورتحال سے دوچار ہے۔
پاکستان کے معاشی منتظمین نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ پاکستان کی مقتدرہ بشمول کچھ سیاسی جماعتیں جنھیں 2023ء کے عام انتخابات میں مسترد کردیا تھا نے حدالامکان کوشش کی ہے کہ تینوں دوست ممالک چین، متحدہ عرب امارت اور سعودی عرب دوطرفہ شراکت داری کے ذریعے پاکستان کو دیئے گئے اپنے 12 ارب ڈالرز قرض کو رول اوور کرنے کے حوالے سے اپنے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے ذریعے آئی ایم ایف کو تصدیق کریں لیکن افسوس کہ بہترین دوستی ہونے کے باوجود تینوں ملکوں نے سیاسی استحکام کی عدم موجودگی میں پاکستان کی خواہش پوری کرنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ موجودہ مقتدرہ معاشی استحکام لانے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتی ہے، پاکستان میں ایک ایسی حکومت کو برسراقتدار لایا گیا ہے جسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے جبکہ اس حکومت کے معاشی پالیسیوں نے مملکت کی کشتی میں اتنے بڑے سوراخ کردیئے ہیں، عمران خان جنھیں سیاسی بنیادوں پر اڈیالہ جیل میں مسلسل ایک سال سے قید رکھا ہوا ہے وہ بھی بند نہیں کرسکیں گے، پاکستان کے معاشی مسائل کا حل اداروں کے حدود کار میں محدود ہونے پر منحصر ہے، جسکا فی الحال تو امکان نظر نہیں آتا، موجودہ حکومت نے وزیر خزانہ کی زیر صدارت کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے، جس میں وزیر توانائی اویس لغاری اور وفاقی وزیر علی پروز ملک سمیت دیگر شامل ہوں گے، جوکہ چینی حکام اور توانائی کے شعبے کے سرمایہ کاروں اور اسپانسرز سے چینی معاشی ایڈوائزری فرم سے مزاکرات کو آگے بڑھائیں گے، شہباز بلاول حکومت نے گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی تھی کہ وفاق نے تین دوست ممالک کے ساتھ 27 ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں اور واجبات کی ری پروفائلنگ کے عمل کو شروع کردیا ہے جبکہ ری پروفائلنگ یا 12 ارب ڈالر رول اوور دراصل آئی ایم ایف کی جانب سے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت مقرر کردہ شرط ہے، جس میں ناکامی کے بعد آئی ایم ایف نے اشارہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو آئندہ قرضے دینے کیلئے پیش رفت نہیں کرئے گی۔
پاکستان نے سعودی عرب سے مزید ایک اعشاریہ 5 ارب ڈالرز کی درخواست کی ہے، جو کہ دو طرفہ تجارتی قرض کی صورت میں آنے کی توقع ہے، جبکہ یہ حفاظتی ڈیپازٹ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے، پاکستان کے معاشی ذرائع نے بتایا کہ سعودی وزیر خزانہ محمد الجدان نے اپنے ہم منصب کو اضافی مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی تصدیق کیلئے عمل میں وقت لگ رہا تھا، 37 ماہ کے قرض پروگرام میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے سالانہ فارن ایکسچینج کی ضروریات کے حوالے سے پلان ترتیب دیا ہے، جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ہم منصبوں سے تعلقات کی بنا پر جلد توسیع کی امید ہے، جبکہ یقین دہانیوں کے ساتھ اگست کے آخری ہفتے میں وزیر خزانہ آئی ایم ایف بورڈ سے رابطے میں تھے، تاکہ ستمبر تک عارضی طور پر نظر ثانی کی جا سکے جبکہ 28 جولائی جو چین سے واپسی پر وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ تینوں دوست ممالک کے ہم منصبوں نے پاکستان کو بیرونی معاشی فرق کے حوالے سے ایک انتہائی مثبت مقام پر پہنچنے میں مدد کی یقین دہانی کرائی، حکومت اور فوجی مقتدرہ کو یہ خوش فہمی کافی عرصے سے ہے، آزاد معاشی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے1.5 ارب ڈالر کا قرضہ موخر کیا جانا مشکل ہے۔