خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اچانک خیبر پختونخوا اسمبلی پہنچ گئے جبکہ کچھ دیر قبل ہی پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد قیصر نے 24 گھنٹے کے اندر گنڈا پور کو رہا کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا اور ان کی عدم رہائی کی صورت میں ملک بھر میں احتجاج کی دھمکی دی تھی، دوسری جانب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی مبینہ گمشدگی کے حوالے سے طلب ہنگامی اجلاس 5 گھنٹے کی تاخیر کے بعد شروع ہوا جس میں وزیر اعلیٰ کے لاپتا ہونے اور خیبرپختونخوا ہاؤس اسلام آباد پر دھاوا بولنے کے خلاف قرار داد پیش کردی گئی، وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور صوبائی اسمبلی پہنچ گئے جبکہ علی امین گنڈا پور کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے حکومت اور تحریک انصاف سے متعلق متضاد بیانات جاری کیے تھے جبکہ حکومت نے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد ان کی گرفتاری کی تردید کی تھی، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان قوم کی جنگ لڑ رہے ہیں، مجھے اپنے ہاؤس اور ارکان پر فخر ہے، عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں، خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس کی صدارت اسپیکر بابر سلیم سواتی نے کی جب کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے اجلاس کی طلبی کے جاری مراسلہ میں کہا گیا کہ اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اغوا ہونے کے معاملے پر بحث کی جائے گی۔
اجلاس سے قبل پی ٹی آئی کے کارکن خیبر پختونخوا اسمبلی کے احاطے میں داخل ہوگئے، داخل ہونے والوں میں خواتین ورکرز بھی شامل ہیں جبکہ کارکنوں نے پارٹی پرچم بھی اٹھائے ہوئے ہیں، اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں خیبر پختونخوا ہاؤس میں خواتین اور بچوں کے ساتھ بدتمیزی کے معاملے کو بھی زیر بحث لایا جائے گا، خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر تحریک انصاف کے احتجاج کی وجہ سے خیبر روڈ کو ٹریفک کی آمدورفت کے لئے بند کردیا گیا جب کہ داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس اور سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے، صوبائی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کو غائب کیا جائے، 24 گھنٹے کے اندر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو رہا نہ کرنے پورے ملک میں احتجاج کریں گے، انہوں نے کہا کہ کل احتجاج میں میڈیا پر تشدد کی مذمت کرتے ہیں، خیبرپختونخوا ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی گئی، کل جو ہوا اس پر احتجاج کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ فارم 47 کی پیدا وار کو قانون سازی کا کوئی حق نہیں ہے، احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، ہم پرامن جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، اراکین قومی اسمبلی کو پریشر میں نہ لایاجائے، فیصلہ کیا ہے کہ قانون سازی اور اسٹیڈنگ کمیٹی میں پیش نہیں ہوں گے۔