سپریم کورٹ آف پاکستان نے احمدی کمیونٹی کے فرد کی ضمانت کیس میں پنجاب حکومت کی نظرِ ثانی کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے ہیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی نظرِثانی درخواست پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں، پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مبارک ثانی نامی شہری کی ضمانت سے متعلق عدالتی فیصلے کے پیرا نو میں آرٹیکل 20 کی مکمل وضاحت نہیں کی گئی ہے، اسسٹنٹ پراسیکیوٹر پنجاب کی جانب سے دائر درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت مذہبی آزادی لامحدود نہیں ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب آرٹیکل 20 کا ذکر آ گیا تو وضاحت کی ضرورت نہیں تھی، کہتے ہیں تو وضاحت کر دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے چھ فروری کو مبارک احمد ثانی نامی ملزم کو توہینِ مذہب کے کیس میں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے، عدالتی فیصلے کے خلاف گزشتہ چند روز سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی جا رہی ہے جب کہ مذہبی تنظیموں نے عدالتی فیصلے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا، یاد رہے کہ مبارک احمد کو سنہ 2022ء میں درج ہونے والے ایک مقدمے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا جس میں اُن پر الزام تھا کہ وہ قرآن کی تحریف شدہ تفسیر کی تقسیم میں ملوث ہیں، مدعی مقدمہ کے مطابق یہ توہینِ مذہب کی دفعات 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، مبارک احمد کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی، معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے چھ فروری 2024 کو فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی کو پانچ ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض فوراً ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔