اسرائیلی فورسز نے اکتوبر 7، 2023ء کے بعد تل ابیب کے زیر قبضہ مغربی کنارے سے ہزاروں فلسطینیوں کو حفظ ما تقدم کے تحت حراست میں لیکر جیل میں ڈال رکھا ہے، فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے گروپ کا کہنا ہے کہ جن فلسطینیوں غزہ پر اسرائیلی جنگ شروع ہونے کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز نے گرفتار کیا ہے، اِن میں 80 فیصد سے زیادہ فلسطینیوں کو انتظامی حکم کے تحت حراست میں رکھا جارہا ہے، اسیران کے امور کے کمیشن نے پیر کو اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل کی بدنام زمانہ پالیسی جسکے تحت اندارج مقدمہ کے بغیر کسی بھی فلسطینی کو حراست میں رکھا جانا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2,370 فلسطینی آٹھ ماہ سے بغیر قانونی امداد کے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، اسی طرح چھ ماہ قید کی مدت پورا کرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 1,010 ہے، جو قانونی امداد سے محروم ہیں اور اِن تمام قیدیوں پر قانون توڑنے کا الزام بھی نہیں ہے، 80 فیصد بیگناہ قیدیوں میں 70 فیصد قیدیوں کی عمریں 18 سے 28 سال کے درمیان ہے اور 30 فیصد قیدیوں کی تعداد 29 سال سے 40 سال کے درمیان ہیں، رپورٹ میں اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ قیدیوں کو انتظامی حکم کے تحت حراست میں لینے کا مقصد متوقع تشدد کو روکنا ہے جو غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے ہوسکتا تھا۔
انسانی حقوق گروپ کے اس گروپ نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر کو حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کا مشترکہ آپریشن الاقصیٰ طوفان کے بعد اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی انتظامی حکم کے تحت نظربندوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، واضح رہے کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی مجموعی تعداد 9,700 ہے، جن میں سے 9,409 قیدی مقبوضہ مغربی کنارے سے ہیں جبکہ 202 قیدیوں کو غزہ سے حراست میں لیا گیا ہے جن زیادہ تعداد استادوں کی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کہا کہ 1967 سے اب تک کم از کم 255 فلسطینی اسرائیلی جیلوں اور حراستی مراکز میں مر چکے ہیں، کمیشن نے زور دے کر کہا کہ گزشتہ اکتوبر سے کم از کم 18 فلسطینی اسرائیلی حراست میں شہید ہوچکے ہیں، اسرائیل جیل حکام فلسطینی قیدیوں کو صحت اور صفائی کے مناسب معیار کے بغیر انتہائی خراب حالات میں رکھتے ہیں، اس کے علاوہ حکام کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کو بھی منظم تشدد، ہراساں کرنے اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔