تحریر :- محمد رضا سید
اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی جنوبی لبنان میں دہشت گردی 9 شہید 28 سو افراد زخمی ہوئے ہیں جس کے بعد خطے میں جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کی کوششوں کو شدید دھچکا لگاہے، حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے بتایا ہے کہ جشن میلاد النبی کی تقریب کے دوران جہاں ایرانی سفیر بھی موجود تھے وائرلیس کمیونیکیشن ڈیوائسز جنہیں پیجرز کہا جاتا ہے کے ذریعے دھماکے کئے گئے ہیں، اسرائیل نے ابھی تک اس خوفناک حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی بیرون ملک دہشت گردی پر مبنی آپریشنز کی ذمہ داری تل ابیب عموماً قبول نہیں کرتا ہے، دہشت گردی کے اس واقعے میں لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے ہزاروں ارکان، سفارتی اہلکار اور عام شہری زخمی ہو ئے ہیں، دہشت گردی کے اس واقعے میں شہید ہونے والوں میں رکن لبنانی پارلیمنٹ ایک 9 سالہ بچی اور حزب اللہ رکن کا بیٹا بھی شامل ہے، سکیورٹی ذرائع کے مطابق حزب اللہ کے قائد سید حسن نصر اللہ مکمل طور پر محفوظ ہیں، غزہ جنگ کے متوازی 11 ماہ قبل اسرائیل کیساتھ کشیدگی میں اضافے کے بعد اسرائیل کی جانب سے یہ اب تک کا سب سے بڑا دہشت گرد حملہ قرار دیا جارہا ہے لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد حملے میں غاصب اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ملوث ہے جس نے پیچرز کو سائبر حملے کیلئے استعمال کیا ہے، دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ لبنان اور مقبوضہ علاقوں میں موجود اسرائیلی فوج کے درمیان پہلے سے جاری لڑائی میں کی شدت پیدا ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے، اسرائیل لبنان کی سرحد سے متصل زیر قبضہ فلسطین کے شمالی علاقوں میں حزب اللہ کے مسلسل حملوں سے پریشان ہے جسکی وجہ سے 60 ہزار یہودی آباد وسطی اسرائیل منتقل ہوگئے چکے ہیں جوکہ اسرائیلی معیشت پر جنگی اخراجات کے علاوہ اضافی بوجھ ہے اور گزشتہ ایک سال سے نجی اور سرکاری عمارتیں خالی ہونے کے سبب خستہ حالی کا شکار ہیں، غاصب اسرائیلی حکومت گزشتہ کئی ماہ سے لبنان کے خلاف فُل اسکیل جنگ کا آغاز کرنے کا اعلان کررہی تھی مگر امریکا کی موجودہ انتظامیہ رواں سال ہونے والے صدارتی انتخابات کی تکمیل تک لبنان کے خلاف فُل اسکیل جنگ کی مخالفت کررہا ہے تاہم تل ابیب میں برسراقتدار دائیں بازو کی شدت پسند حکومت کسی تاخیر کے بغیر لبنان پر حملہ کرنا چاہتی ہے۔
اسی کشمکش کے دوران موساد کی جنوبی لبنان میں کی گئی دہشت گردی نے خطے میں ماحول کو گرم کردیا ہے اور ایک بار پھر اسرائیل نے لبنان میں تعینات ایرانی سفیر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جو یقیناً تہران کو غضّہ دلانے کی کوشش ہے جو غزہ میں جنگ بندی کرانے کے یورپی یقین دہانیوں کے بعد اسماعیل ہنیہ کے تہران میں ہونے والے قتل کا بدلہ لینے میں نرمی سے کام لے رہا ہے، اسرائیل کو معلوم ہے کہ ایران، عراق اور یمن سمیت خطے میں موجود مزاحمتی گروہوں نے تل ابیب کی سلامتی کی ریڈ لائن عبور کرلی ہے، گزشتہ اتوار کو یمن نے اسرائیل اور اُسکے اتحادیوں کے دفاعی نظامکو ناکارہ بناتے ہوئے تل ابیب پر تجرباتی طور پر ایک بلسٹک میزائل فائر کیا تھا جو 2400 کیلومیٹر طویل فاصلہ طے کرکے اپنے ہدف تک پہنچا تھا جس نے اسرائیل کے طول و عرض میں بے چینی کی فضاء پیدا کردی تھی جبکہ پیر اور منگل کے درمیان عراقی مزاحمتی گروہ النجابہ کے غرب اردن پر ایک فوجی ہدف کو نشانہ بنایا تھا، اس صورتحال میں اسرائیلی قیادت کو اضطرابی حالت میں لاکھڑا کیا ہے، لبنان میں جشن میلاد النبیؐ کے موقع پر اسرائیلی دہشت گردی وہ غلطی ثابت ہوگی جس کے ارتکاب نے جنگ کے شعلوں کو ہوا دی ہے، حزب اللہ نے پیجز دھماکوں کی تصدیق کرتے ہوئے منگل کی شام جاری کردہ بیان میں کہا کہ جنوبی لبنان میں دہشت گردی کے اس واقعے کا مکمل طور پر ذمہ دار غاصب اسرائیل ہے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دھماکوں کی چھان بین کے بعد حزب اللہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائیل نے اس خفیہ کارروائی کیلئے سائبر ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے عام لوگوں کو نشانہ بنانے کا راستہ کھول دیا ہے، حزب اللہ نے واضح کردیا ہے کہ وہ اس دہشت گردی کا مناسب انداز میں سخت جواب دے گی جس کا اسرائیلی قیادت کو ادراک تک نہیں ہوسکے گا۔
لبنان کی وزارت صحت نے عوام اور لبنانی فورسز کو پیجر رکھنے اور استعمال کرنے سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے، پیجرز چھوٹے وائرلیس آلات ہیں جو عام طور پر سیل فون کے بہت زیادہ عام ہونے سے پہلے مختصر ٹیکسٹ میسجز یا الرٹس بھیجنے اور وصول کرنے کیلئے استعمال ہوتے تھے، اسرائیل اور مغربی ملکوں کی جانب سے اینڈروئیڈ فون کو جاسوسی کے مقاصد کیلئے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بعد حزب اللہ کے ارکان پیجرز کو کسی بھی الرٹس کیلئے استعمال کرتے تھے، گروپ نے اس بات پر زور دیا کہ اس کی مزاحمتی قوتیں لبنان اور اس کے عوام کے دفاع کیلئے اعلیٰ ترین سطح پر آمادہ ہیں، حزب اللہ کے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیجرز دھماکے اب تک کی سب سے بڑی سکیورٹی ناکامی ہے جس کا مزاحمتی تحریک کو اسرائیل کے ساتھ تقریباً ایک سال کی جنگ کے دوران سامنا کرنا پڑا ہے۔