اسرائیل کی پارلیمنٹ(کنیسٹ) نے دو ریاستی حل کے امریکہ اور سعودی حمایت یافتہ منصوبے کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک کر دفن کردیا، اسرائیلی کینسٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کو بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا گیا ہے، جمعرات کے اوائل میں کنیسٹ میں قرارداد کے حق میں 68 اور مخالفت میں صرف نو ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا، اس میں کہا گیا ہے کہ ایک فلسطینی ریاست اسرائیل کی ریاست اور اس کے شہریوں کے لئے ایک وجودی خطرہ ہے، اسرائیل فلسطین تنازعہ کو دوام بخشے گی اور خطے کو غیر مستحکم رکھے گی، وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد نے اس قرارداد کی حمایت کی، روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ کی سینٹرل لیفٹ پارٹی قرارداد کی حمایت سے بچنے کے لئے سیشن چھوڑ کر چلی گئی، اس کے باوجود کہ وہ دو ریاستی حل کے حق میں ہے، فلسطین نیشنل انیشیٹو کے سیکرٹری جنرل مصطفیٰ برغوتی نے قرارداد کی منظوری پر تنقید کرتے ہوئے ایکس پر لکھا حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی طرف سے کسی بھی صہیونی پارٹی نے قرارداد کے خلاف ووٹ نہیں دیا، برغوتی نے پوسٹ میں مزید لکھا کہ یہ قرارداد فلسطینیوں کے ساتھ امن کو مسترد کرنے اور اوسلو معاہدے کی موت کے سرکاری اعلان ہے۔
اوسلو معاہدہ جس پر پہلی بار 1993 میں پی ایل او اور اسرائیلی قیادت نے دستخط کیے گئے تھے، اس معاہدے میں دو ریاستی حل کو تجویز کیا گیا تھا اور ایک قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست کا مطالبہ اسرائیل کی جانب سے تسلیم کیا گیا تھا، جسے اسرائیلی ریاست کے ساتھ شانہ بشانہ رہنا تھا لیکن اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی پر غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر اور غزہ کی مکمل ناکہ بندی جیسی پالیسیوں کو اپنایا جس نے دو ریاستی حل کو ناممکن بنایا، فلسطینی اتھارٹی کے اہلکار حسین الشیخ نے سوشل میڈیا پر قرارداد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کنیسٹ کا فلسطینی ریاست کا مسترد ہونا قابض ریاست کی نسل پرستی اور اس کی بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرنے کی تصدیق کرتا ہے، اور قبضے کو ہمیشہ کے لئے برقرار رکھنے کے نقطہ نظر اور پالیسی پر اصرار کرتا ہے۔