فلسطینی ہلال احمر نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے اتوار کے روز شدید گولہ باری کےدوران طبی ٹیموں کو گھیرے میں لے کر غزہ کے مزید دو ہسپتالوں کا محاصرہ کر لیا اور اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے غزہ کے مرکزی الشفاء اسپتال میں جاری جھڑپوں میں 480 فلسطینی شہریوں اور طبی عملے کو گرفتار کرلیا ہے، اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ فلسطینی ہسپتالوں میں اکثر حماس کے ٹھکانوں اور ہتھیاروں کے گڑھ کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں جبکہ حماس اور طبی عملہ اس کی تردید کرتا ہے، فلسطینی ہلالِ احمر نے کہا کہ اس کا ایک کارکن اُس وقت مارا گیا جب اسرائیلی ٹینکوں نے شدید بمباری اور گولہ باری کے درمیان جنوبی شہر خان یونس میں العمل اور النصر ہسپتالوں کے ارد گرد کے علاقوں میں اچانک فوجی آپریشن شروع کردیا، ہلالِ احمر نے بیان میں کہا کہ اسرائیلی بکتر بند افواج نے العمل ہسپتال کو سیل کر دیا اور اس کے اطراف میں بڑے پیمانے پر مسماری کی کارروائیاں کیں، بیان میں مزید کہا ہماری تمام ٹیمیں اس وقت انتہائی خطرے میں ہیں اور مکمل طور پر غیر فعال ہوچکی ہیں۔
اسرائیلی افواج اب العمل کے احاطے سے عملے، مریضوں اور بے گھر لوگوں کو مکمل طور پر نکالنے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور اس کے مکینوں کو زبردستی نکالنے کے لئے علاقے میں اشک آور گیس کے شیل برسا رہی ہیں، اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس فوجی آپریشن کا مقصد خان یونس میں انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانا ہے جہاں ممکنہ طور پر مزاحمت کار ہوسکتے ہیں، حماس اسرائیل پر شہری اہداف کے خلاف جنگی جرائم کا الزام عائد کرتی ہے، غزہ کی وزارتِ صحت کہتی ہے کہ اسرائیلی افواج نے غزہ شہر کے شمال میں واقع الشفاء میں درجنوں مریضوں اور طبی عملے کو حراست میں لے لیا ہے جو ایک ہفتے سے اسرائیلی قبضے میں ہے، الشفاء صحت کی ان چند سہولیات میں سے ایک ہے جو شمالی غزہ میں جزوی طور پر فعال ہے اور دوسرے ہسپتالوں کی طرح تقریباً 20 لاکھ شہریوں میں سے کچھ کو پناہ دیئے ہوئے ہے جو جنگ سے بے گھر ہونے والی غزہ کی 80 فیصد آبادی ہے۔
1 تبصرہ
عالمی عدالت انصاف جنگ بندی کی درخواست پر عبوری فیصلہ کردیتی تو اسرائیل کی مجال نہیں تھی کہ وہ ہسپتالوں کو نشانہ بنائے اور طبی عملے کو گرفتار کرکے طبی سہولتوں میں رخنہ ڈالے