برطانوی دفترِ خارجہ کے ایک افسر نے برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہٰ فروخت کرنے کے معاملے پر احتجاجاً استعفیٰ دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانوی حکومت بھی شاید جنگی جرائم میں ملوث ہے، برطانوی دفترِ خارجہ میں ملازمت کے دوران مارک سمتھ انسدادِ دہشت گردی کے امور پر کام کر چکے ہیں اور حالیہ دنوں میں وہ ڈبلن میں سفارتخانے میں خدمات سرانجام دے رہے تھے، انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھیجی گئی ای میل میں لکھا کہ انھوں نے دفترِ خارجہ میں ہر سطح پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، برطانوی فارن، کامن ویلتھ اور ڈویلپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بین الاقوامی قوانین کا تحفظ کرنے کے لئے پُرعزم ہے، مارک سمتھ نے اپنا استعفیٰ ای میل کے ذریعے برطانوی حکومت کے سینکڑوں حکام، سفارتخانے کے ملازمین اور دفترِ خارجہ کے مشیروں کو بھیجا ہے، مارک سمتھ نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ وہ اس سے قبل مشرقِ وسطیٰ میں ہتھیاروں کی برآمدات کے امور پر کام کر چکے ہیں اور ہر دن ان کے ساتھی غزہ میں اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے جنگی جرائم اور خلاف ورزیوں کی واضح مثالیں دیکھ رہے تھے، انھوں نے مزید لکھا کہ برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کو تسلسل سے ہتھیاروں کی فروخت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
برطانوی دفترِ خارجہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے یہ معلوم کرنے کے لئے ریویو کا آغاز کردیا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین پر عمل کر رہا ہے یا نہیں، برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں سینکڑوں حکام اسرائیل اور غزہ میں جنگ کے حوالے سے اپنی مخالفت کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ان معاملات پر چند ہی استعفے دیکھنے میں آئے ہیں، مارک سمتھ کی ای میل کے مطابق وہ بطور سیکنڈ سیکریٹری کاؤنٹر ٹیررازم خدمات سرانجام دے رہے تھے، جو کہ ایک جونیئر رینک کی پوزیشن ہے، انھوں نے اپنی ای میل میں مزید لکھا کہ وزرا دعویٰ کرتے ہیں کہ برطانیہ اسلحے کی فروخت کے حوالے سے شفافیت کو ملحوظِ خاطر رکھتا ہے تاہم یہ بات حقیقت کے برعکس ہے، اسرائیل کی جانب سے متعدد مرتبہ غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات کی تردید کی گئی ہے۔