تحریر: محمد رضا سید
افغان طالبان کا اہم عسکری بازو حقانی نیٹ ورک کے اہم قائدین جس اس عسکری نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی بھی شامل ہیں پر اقوام متحدہ کی سفری پابندیاں ختم کردیں گئیں ہیں، واضح رہے کہ حقانی نیٹ ورک وہی ہے جس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہیڈ کوارٹر بناکر افغانستان کے علاقوں پر قابض امریکی فوج کو دھول چٹائی تھی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں عبوری انتظامیہ کے لئے خدمات انجام دینے والے چار طالبان رہنماؤں پر عائد سفری پابندیاں ختم کردیں ہیں، سلامتی کونسل کے مختصر نوٹیفکیشن کے مطابق افغانستان میں عبوری انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے دار، عبدالکبیر محمد جان، عبدالحق واثق، نور محمد ثاقب اور سراج الدین حقانی پر عائد سفری پابندیاں ہٹانے کی منظوری دی گئی، اگست 2021 میں اقتدار پر طالبان کے قبضے کے بعد سے، عبدالکبیر محمد جان کو سیاسی امور کے لئے نائب وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا، جب کہ سراج الدین حقانی عبوری انتظامیہ میں وزیر داخلہ ہیں، عبدالحق واثق افغانستان کے انٹیلی جنس چیف ہیں جبکہ محمد ثاقب وزیر حج و مذہبی امور ہیں، سفری پابندیاں اٹھانے کا نوٹیفکیشن اس وقت سامنے آیا ہے جب حقانی نے جو دہشت گردی کے لئے امریکہ کو مطلوب ہیں، اسی ہفتے متحدہ عرب امارات کا اپنا دورہ مکمل کیا، جہاں انہوں نے میزبان ملک کی قیادت سے ملاقاتیں کی تھیں۔
سراج الدین حقانی اور ان کے وفد نے ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید النہیان سے ملاقات کی جہاں انہوں نے متحدہ عرب امارات میں طالبان قیدیوں کی رہائی پر تبادلہ خیال کیا اور افغان شہریوں کو متحدہ عرب امارات میں ویزوں کی سہولت کی فراہمی کے لئے بھی مذاکرات کئے، طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کے محکمہ سراغرسانی کے سربراہ عبدالحق واثق بات چیت میں حقانی کے ساتھ تھے، تقریباً تین سال قبل طالبان کی جانب سے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے سراج الدین حقانی کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا، امریکی محکمہ خارجہ کا ریوارڈ فار جسٹس پروگرام جس کا مقصد عالمی دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہے، حقانی کی گرفتار کرنے سے متعلق مددگار معلومات فراہم کرنے والے کو ایک کروڑ ڈالر انعام دینے کی پیشکش رکھی ہوئی ہے، اس تناظر میں جس وقت ابوظہبی میں سراج الدین حقانی نمودار ہوئے تو سب سے پہلے اِن پر اقوام متحدہ کی سفری پابندیوں اور امریکی محکمہ خارجہ کے انعام کا سوال اُٹھا مگر اس سے پہلے درپردہ مؤثر سفارتکاری کے ذریعہ کابل کے حکمران طالبان نے اپنی قیادت کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو ختم کرالیا تھاجبکہ امریکہ کو منانے کیلئے اہم کردار متحدہ عرب امارات اور قطر نے ادا کیا تھا اور پاکستان اس پورے عمل سے نہ صرف لاتعلق رہا بلکہ پاکستان سے معنیٰ خیز مشاورت بھی نہیں کی گئی ورنہ پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کے معاملے کو اقوام متحدہ کی سفری پابندیوں سے منسلک ضرور کرتا اور اس موقع کو نہیں گنواتا، امریکی دوستی کا دم بھرنے والے بتائیں کہ واشنگٹن افغانستان کے معاملے سے پاکستان کو کیوں الگ تھلگ رکھے ہوئے ہے۔
افغان طالبان نے گزشتہ دو ڈھائی سالوں میں عالمی سفارتکاری میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اسی دوران پاکستان کو عالمی سفارتکاری میں شدید جھٹکے لگے ہیں اور کم ازکم دو پڑوسی ملکوں سے تعلقات کشیدگی کی سطح سے بڑھ چکے ہیں جبکہ ایران کیساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہیں رہی ہے، ایران کے مقتول صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے موقع پر طاقتور حلقوں کا رویہ مناسب نہیں تھا، ایرانی صدر کو آرمی چیف سے ملاقات کیلئے راولپنڈی میں مدعو کیا گیا، اس کے علاوہ ایرانی صدر کو پاکستان کے عوام سے مخاطب ہونے کا موقع بھی نہیں دیا گیا، اس رویہ کو ایرانی سفارتکاروں نے نوٹ کیا اور سفارتی اخلافیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اس شکایت کا اظہار بھی کردیا، پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ شاہ کے ایران کو تو پسند کرتی تھی مگر جمہوری ایران سے تعلقات زیادہ تر سرد مہری کا شکار رہے ہیں تاہم گرم و سرد تعلقات کی نوعیت موجودہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کی روشنی میں پاکستان کے مفادات کیلئے اچھے نہیں ہیں، امریکہ سے دوستی برابری اور ملکی مفاد کی بنیاد پر رکھیں لیکن امریکی دوستی پر ایران، افغانستان اور چین کی دوستی قربان نہیں ہونے دیں، افغانستان ناراض ہے، چین مثبت عزم رکھنے کے باوجود پاکستان سے مطمئن نظر نہیں آتا، پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لیکر چائنہ پہنچیں ہیں تاکہ سی پیک منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جاسکے، پالیسی سازوں کی جانب سے سی پیک منصوبے کو پس پشت ڈالنے سے پاکستان کو مالی نقصان تو ہوا لیکن اب یہ منصوبہ پاکستان کیلئے گیم چینجر بھی نہیں رہا ہے، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، ہماری ٹرین نکل گئی ہے وقت کا پہیہ پیچھے نہیں کیا جاسکتا، پاکستان کے پالیسی سازوں نے جب سے ڈرامہ انڈسٹری میں قدم رکھا ہے اُس وقت سے ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو بھی ڈرامہ سمجھ لیا ہے، یاد کریں صرف ایک ہی اقتصادی اہمیت رکھنے والا کارگو قافلہ چین سے فوجی پرٹوکال میں پاکستان میں داخل ہوا اور گوادر پورٹ سے بحری جہازوں کے ذریعے منزل مقصود تک پہنچایا گیا لیکن پھر کیا ہوا، سب پیک اپ کردیا گیا، اداکاری سے عالمی تعلقات کو نبھانا ممکن نہیں ہے۔
یہاں گوادر پورپ کا مرثیہ پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس پورٹ کی تعمیر کے مقاصد اب چاہ بہار پورٹ پورا کرنے جارہی ہے، افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے چاہ بہار پورٹ کی تعمیر کو مکمل کرنے کیلئے بھارت کو دوبارہ اس منصوبے کا حصّہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، افغانستان خشکی سے گھیرا ہوا ملک مستقبل کیلئے پاکستان کے ساحلوں کی طرف نہیں دیکھ رہا ہے وہ چاہ بہار بندرگاہ کو اپنے لئے لائف لائن بنارہا ہے جبکہ چین اور روس سمیت وسطی ایشیائی ممالک مثلاً ازبکستان، تاجکستان اور قازقستان ایران کی چاہ بہار پورٹ کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، گوادر پورٹ کی تعمیر کے مقاصد میں پیچھے رہ جانے کی وجوہات میں سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کیساتھ ساتھ امریکہ کی پاکستان کے داخلی اور خارجی معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہے، پاکستان کی موجودہ مقتدرہ نے امریکی سفیر کو گوادر جانے کی اجازت دیکر جو غلطی کی ہے اسکا مُداوا مشکل سے ہو سکے گا، چین افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے جو اُس نے پاکستان میں کرنی تھی، چین کی افغانستان میں سرمایہ کاری کے مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین کی یہ کوششیں نہ صرف اقتصادی فوائد کے لئے ہیں بلکہ علاقائی استحکام اور سکیورٹی کے لئے بھی اہم ہیں، چین کی کمپنیوں کو افغانستان میں مختلف پروجیکٹس، جیسے کہ انفراسٹرکچر، توانائی اور معدنیات کے شعبے میں بڑے مواقع مل چکے ہیں اور ان پروجیکٹس سے چین کو مالی فوائد حاصل ہورہے ہیں، چین اس وقت کان کنی، سڑکوں کی تعمیر، اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو مکمل کررہا ہے، پاکستان کے حل و عقد کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ورنہ پاکستان پڑوسی ملک افغانستان سے بہت پیچھے چلا جائیگا، پاکستان کا ایٹمی طاقت کا چورن امیر عرب ملکوں میں بکنا بن ہوگیا ہے، ہمیں وہ منہ نہیں لگارہے ہیں افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کو یواےای کا صدر خوش آمدید کہتا ہے اور گھنٹون ملاقات کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے صدر ابوظہبی میں قیام کرتے ہوئے انہیں ایک وقت کی ضیافت کا نہیں پوچھا جاتا۔
افغان طالبان نے اپنی دورسری حکمرانی کی اننگ بہت کامیابی کیساتھ شروع کی ہےوہ ایران سے افغانی کرنسی میں تیل اور گیس خرید کر اپنا زرمابدلہ بچارہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کو ڈالر کے پیچھے بھاگنا نہیں پڑتا اور نتیجے میں افغان کرنسی مضبوط ہورہی ہے، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو امریکی خوشی اور ناخوشی سے منسلک نہیں کرنا چاہیے پاکستان کو امریکی اسلحہ دوسرے ذرائع سے مل سکتا، یہ یاد رکھیں امریکہ پاکستان کو ترقی کرنے نہیں دے گا وہ انکھوں میں انکھیں ڈال کر بات کرنے والوں کی بات مانتا ہے، طالبان نے بالآخر امریکہ کو مجبور کردیا کہ وہ ہزاروں امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے والے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی پر عائد عالمی پابندیوں سے آزاد کرئے، اغیار کا لباس زیب تن کرلینے ابتک وہ فہم و فراست ملی نہیں جو شلوار قمیض پہنے سادہ لوگوں کو حاصل ہے، انھوں نے بیرون ملک دولت منتقل کرنے کیلئے اپنے ملک کی دولت لوٹنا کا منصوبہ نہیں رکھتے اور جب تک طالبان قومی خدمت سے سرشار رہیں گے کامیاب ہوتے جائیں گے، چین ایک لادین ملک ہے طالبان نے اپنے ملک کی ترقی کیلئے چین کا دروازہ کھولا ہے، چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کا ایک اہم حصہ افغانستان بن چکا ہے، یہ راہداری ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کا روٹ بننے جارہی ہے، افغانستان ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے ہندوستان سے تجارت کا راستہ کھول رہا ہے، پاکستان پیچھے جارہا ہے، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کا پاکستان اب اہم کھلاڑی نہیں رہا ہے، جو افسوسناک حقیقت ہے اور یہ صورتحال اُس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں لایا جاتا اور مضبوط جمہوریت کے ذریعے آزاد خارجہ پالیسی اختیار نہیں کی جاتی ہے۔