اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ واکر ٹرک نے 26ویں آئینی ترمیم پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو شدید مجروح کردے گی, واضح رہے کہ حال ہی میں کی جانے والی 26ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ کے حوالے سے کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیارات سلب کرلئے گئے ہیں اور سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس آف پاکستان کی نامزدگی کا اختیار بھی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے حکومت کو مل گیا ہے جبکہ پاکستان میں عمومی تاثر ہے کہ ملک میں چند فوجی جنرلز کی ایک متوازی حکومت چل رہی ہوتی ہے اور سیاسی حکومت کے پیچھے چند جنرلز فوج کی طاقت کو استعمال کرکے سیاستدانوں سے من مانے فیصلے کراتے ہیں کیونکہ زیادہ تر برسراقتدار سیاستدان کرپشن اور دیگر جرائم سے آلودہ ہوتے ہیں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق دفتر نے منگل کو ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ واکر ٹرک کو خدشہ ہے کہ نئی آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے وسیع تر مشاورت اور بحث مباحثے کو نظر انداز کرکے جلد بازی سے کام لیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ آئینی ترامیم انسانی حقوق کے عالمی قوانین سے ہم آہنگ ہونی چاہئیں، قبل ازیں انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹس (آئی سی جے) نے پیر کو ایک بیان میں آئینی ترامیم کو عدلیہ کی آزادی کے لیے دھچکا قرار دیا تھا، آئی سی جے کے سیکریٹری جنرل سنتیاگو کینٹن نے کہا تھا کہ انہوں نے عدلیہ کو ریاست کے دیگر حصوں تک رسائی اور انسانی حقوق کے تحفظ سے روک کر اسکی آزادانہ اور موثر انداز میں کام کرنے کی استعداد کو ختم کردیا ہے۔
واضح رہے کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نتائج کی پروا کیے گئے بغیر آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، وکلا اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے آئینی ترمیم واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں عدلیہ، حکومت کے زیرتسلط آجائے گی، یاد رہے کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں کی جانے والی کچھ بنیادی تبدیلیوں میں ہائیکورٹس کی ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم کردیا گیا ہے، آئینی بینچز کا قیام اور ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کو جانچنے کا نظام متعارف کرایا گیا ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی کیس خود منتقل کرسکتی ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کے عمل میں ایک وفاقی وزیر اور ایک سینئر وکیل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔