پاکستان میں 8 فروری 2024ء کے انتخابات کو پاکستان کے عوام ہی نہیں عالمی برادری بھی تسلیم کرنے سے گریزاں ہے امریکی کانگریس کے اراکین نے بائیڈن انتظامیہ کو خط لکھا ہے کہ جب تک الیکشن 2024ء کی بد انتظامی اور حقیقی نتائج جاری نہیں ہوتے اُس وقت تک امریکی انتظامیہ پاکستان میں کرائے گئے انتخابات کو تسلیم نہیں کرئے، یورپی یونین نے بھی انتخابات میں دھاندلی اور نتائج میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ہیرا پھیری پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اس کے علاوہ عالمی میڈیا بھی دھاندلی زدہ انتخابات کو مسلسل بے نقاب کررہا ہے، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نتائج پر عالمی میڈیا نے سوالات کھڑے کردیئے ہیں، اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حیثیت متنازعہ بن چکی ہے، چاہے تسلیم کریں یا نہ کریں ریاست کو عالمی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
درجنوں نشستوں کے نتائج میں چھیڑ چھاڑ کے پی ٹی آئی کے الزام کی عالمی اور ملکی میڈیا تائید کررہا ہے، یہ پاکستان کیلئے مشکل صورتحال وجود میں لارہی ہے، جس کا احساس مقتدر حلقوں کو نہیں ہے پاکستان کو اس سال اکتوبر تک 24 بلین ڈالر کا انتظام کرنا ہے تاکہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ جائے، فوجی مقتدرہ نوازشریف کو اقتدار میں لانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ عمران خان فوجی مقتدرہ سے ڈیل کیلئے تیار نہیں ہیں، پاکستان کیلئے یہ وہ مقام ہے جس میں لچکدار رویہ ہی ریاست کی بھلائی کا سبب بن سکتی ہے، یہ یقینی پیشنگوئی ہے کہ نوازشریف اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت بنادی گئی تب بھی مسائل حل نہیں ہونگے کیوبکہ پاکستان کی عوام کی غیر معمولی اکثریت اس وقت بھی عمران خان کے نظریہ کے ساتھ کھڑی ہے، اس حقیقت کو جتنی جلد ہوسکے تسلیم کرلیا جائے، نواز لیگ کو اقتدار کے منصب پر بیٹھا دیا جائے اور یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ اقتدار کے رواں دور میں ایک روپیہ کی بھی کرپشن نہیں کرئے گی اس کے باوجود لوگوں کے ووٹوں کی بے حرمتی کے نتیجے میں ن لیگ کو امن وامان کیساتھ حکومت نہیں چلاسکے گی، اس کے ساتھ تحریک انصاف عوام کو متحرک رکھے گی وہ نوازشریف اور اِن کے سرپرستوں کی منصوبہ بندی کی ہر چال پر چال چلے گی اور یوں پاکستان استحکام کی طرف بڑھنے کے بجائے مزید غیر مستحکم ہوگا۔
غلطی کی اصلاح بگڑے ہوئے معاملے کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ضد اور ہٹ دھرمی کبھی کسی کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی ہے اور جب یہ ضد اور ہٹ دھرمی باطل پر ہو تو نتائج بھیانک نکلتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو اور اُس وقت کی فوجی مقتدرہ کی ضد نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا اور مجیب الرحمن کی ضد نے برصغیر کے مسلمانوں کو لاچار کردیا، کاش مجیب الرحمٰن اپنے وطن کا نام تبدیل نہ کرتے تب بھی اغیار کامیاب نہیں ہوتا، حکمرانوں کی ضد کی سزا پاکستان کے عوام بھگتے رہے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، عوام بہت زیادہ چارچ ہیں اور اُس ادارے کو جسے 75 سال سر کا تاج بنایا ہوا تھا اُس پر اُنگلی نہیں ہاتھ اُٹھنا شروع ہوگیا ہے، ابھی بہت وقت ہے ریاستی اداروں کی توقیر کو بچایا جاسکتا ہے، الیکشن نتائج میں غیر معمولی دھاندلی عوام ہرگز تسلیم نہیں کریں گے، افواج پاکستان قومی اُمنگوں کو پیش نظر رکھے جبکہ سیاسی قوتیں اس ریاستی قوت کو اپنے مذموم عزائم کیلئے استعمال کرنا چھوڑ دیں، پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ افواج پاکستان کو سیاستدانوں نے زبردستی سیاست میں کھیچا ہے، اس وقت بھی نوازشریف یہی کام انجام دے رہے لیکن اب عوام ایسا نہیں ہونے دے رہے ہیں مزاحمت ہورہی ہے، ابھی مزاحمت سیاسی سطح پر ہورہی ہے، پاکستان کے دشمن صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں وہ ضرور اس کا فائدہ اُٹھائیں گے، ہمیں شام اور عراق کی صورتحال سے بچنا ہے تو ذمہ داری کا ثبوت دینا اور جاہ و منصب کی قربانی دینا ہوگی۔