تحریر: محمد رضا سید
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اسرائیلی وزیر دفاع گالانٹ کے واشنگٹن پہنچنے پر کہا کہ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ لبنان کے لئے تباہ کن ہوگی، مسٹر آسٹن نے کہا کہ واشنگٹن فوری طور پر ایک سفارتی معاہدے کی جستجو میں لگا ہوا ہے تاکہ اسرائیلی شہری مقبوضہ شمالی علاقوں میں اپنے گھروں کو واپس آسکیں، حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی سرحد پر لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے، اسرائیلی وزیر دفاع گالانٹ نے واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقات کے بعد اُنھوں نے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا اشارہ دیئے بغیر دھمکی دی ہے کہ اسرائیلی فوج بڑی جنگ کی صورت میں لبنان کو پتھروں کے دور میں واپس لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسکا واضح مطلب لبنانیوں کو اسرائیل کی فضائی برتری سے خوفزدہ کرنا ہے جبکہ حزب اللہ پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اسرائیل کے خلاف اُس کے زیر قبضہ شمالی سرحد پر جبگی سرگرمیاں اُس وقت تک جاری رہینگی جب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی جارحیت ختم نہیں ہوجاتی ہے، حزب اللہ نے مغربی سفارتکاروں سے بلواسطہ رابطوں کے دوران وضاحت کردی ہے کہ اسرائیل نے جنگ میں تیزی لانے کی کوشش کی تو اسرائیل کے تمام بڑے شہر جہنم بن جائیں گے، صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ اور اسکے اتحادیوں سمیت اسرائیل کی گیڈربھپکیوں کا حزب اللہ پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہورہا ہے، امریکی دفاعی ماہرین اس بات کو مانتے ہیں کہ اسرائیل کیلئے دو محاذوں پر لڑنا ہر گزرتے دن کیساتھ دشوار ہوتا جارہا ہے اور ایسی حالت میں جب اسرائیل کے 70ہزار فوجی ذہنی امراض کا شکار ہوکر زیر علاج ہیں، صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا یہ بھی خیال ہے حماس اپنی اتحادی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے بل بوتے پر جنگ بندی شرئط پر لچک نہیں دکھا رہی ہے۔
اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں میں حزب اللہ کے بتدریج سنگین ہوتے ہوئے حملوں کو بند کرانے کی امریکہ اور یورپی ملکوں کی خواہش کے پس پردہ مذموم عزائم پوشیدہ ہیں، یہ اسکتباری طاقتیں اسرائیل کے خلاف مزاحمتی محاذ کے عزم کو متزلزل کرنے کیلئے لبنانی عوام کو خوفزدہ کرنے کیساتھ ساتھ تعصبات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازشوں کررہی ہیں، ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ حزب اللہ اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی علاقوں میں اسرائیلی فوج کو ناک چنّے چبوانے کے علاوہ اس علاقے میں قائم ہونے والی ناجائز یہودی بستوں کے دسیوں ہزار لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے، اسرائیل جو پہلے ہی معاشی دباؤ کا شکار ہوچکا ہے، اُسے اسرائیلی شہریوں کی نقل مکانی کے سبب مالی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑرہا ہے، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت نے اسکی معیشت کو روبہ زوال کردیا ہے اور ہر گزرتے دن کیساتھ اسرائیلی معیشت سکڑ رہی ہے، جنگ کے معاشی نقصان سے اسرائیل کو اگلی دہائی کے دوران اندازاً 400 بلین ڈالر کا نقصان متوقع ہے جو اسرائیل کے معاشی مستقبل کو خطرناک بنا رہا ہے، اسرائیلی معیشت کو بلواسطہ جھٹکا سرمایہ کاری اور پیداواری ترقی میں کمی کیساتھ لیبر مارکیٹ میں خلل کے باعث لگا ہے، اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی معیشت توقع سے کہیں زیادہ سکڑ گئی، 2023ء کے اختتام پر اسرائیلی کی مجموعی قومی پیداوار میں اُنیس فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی، اسرائیلی شہریوں نے اپنے گھریلو اخراجات 26.3 فیصد کم کردیئے جبکہ برآمدات 18.3 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی، تعمیراتی شعبے کو مزدوروں کی کمی، فوجی کال اپ اور فلسطینی مزدوروں کے اسرائیل میں کام کرنے کے پرمٹ منسوخ کرنے کی وجہ سے تعمیراتی شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا، اس شعبے میں ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری 67.8 فیصد کم ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں جبکہ جنگی اخراجات اور اسرائیلی شہریوں کے کاروبار کی تباہی اور نقل مکانی سے متاثرہ گھرانوں کو معاوضے کی ادائیگیوں پر اسرائیلی حکومت کو اپنی کُل آمدنی کا 88.1 فیصد رقم خرچ کرنا پڑا ہے۔
امریکی حکام گزشتہ دو ہفتوں سے حزب اللہ کے خلاف مذموم خیالات کا اظہار کرکے لبنانی عوام کے اتحاد اور یکجہتی نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، امریکی وزیر دفاع مسٹر آسٹن نے اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گالانٹ کا پینٹاگون میں استقبال کرتے ہوئے کہا کہ جنگ لبنان کیساتھ ساتھ اسرائیلیوں کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہوگی جبکہ سفارتکاری اب تک کشیدگی میں مزید اضافے کو روکنے کا بہترین راستہ ہے، اسی لئے امریکہ فوری طور پر ایک سفارتی معاہدے کی جستجو کر رہا ہے جو اسرائیل کے زیر قبضہ شمالی سرحدی شہروں میں دیرپا سکون بحال کرے اور اسرائیلی شہری محفوظ طریقے سے اپنے گھروں میں واپس جانے کے قابل ہوجائیں، واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر دفاع گالانٹ نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ اسرائیل مقبوضہ شمالی سرحد پر سکیورٹی قائم کرنے کے لئے پُرعزم ہے لیکن ہمیں ہر ممکنہ منظر نامے کے لئے تیار رہنا ہوگا، پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائڈر نے دوبارہ کہا کہ سفارتکاری حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان تناؤ کو مکمل جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنے کا بہترین طریقہ ہے، اس موقع پر صحافیوں کو بتایا کیا کہ جنگ بڑھائی گئی تو کسی فریق کی کامیابی ممکن نہیں ہوگی، میجر جنرل رائڈر نے کہا کہ اسرائیل اور اس کے دفاع کیلئے امریکہ ہمیشہ پُر عزم رہا ہے لیکن امریکہ خطے میں جنگ کا پھیلاؤ دیکھنا نہیں چاہتا، اسرائیلی وزیر دفاع گالانٹ نے اپنے دورہ واشنگٹن ایک بار پھر اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو بزور طاقت بند کیا جائے دراصل اسرائیل، امریکہ اور مغربی طاقتوں کو آگے رکھ کر اپنے مذموم مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے جو صیہونیوں کی قدیم روایت کا خاصہ ہے، امریکہ اور مغربی ملکوں کو ایران کے خلاف محاذ آرائی کی قیمت کا اندازہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کیلئے مذاکرات کے راستے کو بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ دوسری صورت حال کسی ملک کے قابو میں نہیں آسکے گی۔