تحریر: محمد رضا سید
صدر جو بائیڈن بالآخر آئندہ صدارتی مدت کیلئے دوڑ میں حصّہ لینے سے پہلے ڈھیر ہوکر زمین پر گرچکے ہیں، صدر بائیڈن کے منصب صدارت پر مزید بیٹھنے کیلئے اُن کے پاس چند ماہ رہ گئے ہیں لیکن وہ کسی پالیسی ساز فیصلے کرنے سے قاصر رہیں گے اور روزمرہ کے معاملات پر ہی فوکس کرسکیں گے کیونکہ ہارے ہوئے گھوڑے کی قدر و قیمت گر جاتی ہے لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند ماہ دنیا امریکی پالیسیوں میں نئی منتخب ہونے والی انتظامیہ کی سوچ کو واضح طور پر دیکھ سکے گی، صدر جو بائیڈن کی مدت صدارت دنیا اور خود امریکیوں کیلئے اچھی ثابت نہیں ہوئی، بائیڈن کی مدت صدارت کے دوران اُن کی منافقانہ ذہنیت اور اقتدار پرستی نمایاں رہی جبکہ وہ اس قابل نہیں تھے کہ ازخود کوئی فیصلہ کرسکیں، اُن کے دور کی دو یادگار جنگیں ہیں جس میں پہلی یوکرین جنگ اور دوسری اسرائیل کی غزہ پر مسلط کی گئی جارحیت نمایاں ہیں، انسانیت کو درد پہنچانے والی اِن دونوں جنگوں کی ذمہ دای جو بائیڈن اور اُن کی انتظامیہ پر آتی ہے، جو بائیڈن نے روس یورپ تعلقات کو اپنی ضد کی وجہ سے پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچائے، جس نے یورپ کی ترقی کو ملیا میٹ کردیا، یورپ میں توانائی کے بحران نے اُس کی معیشت کا بھٹہ بیٹھا دیا، یوکرین جنگ سے قبل روس یورپ کے لئے گیس اور تیل کا ایک اہم سپلائر تھا، روس کی گیس اور تیل کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ یورپی یونین کے ملکوں کی توانائی ضروریات کو پورا کرتا تھا، یورپی یونین کی گیس کی ضروریات کا تقریباً 40 فیصد روسی گیس سے پورا ہوتا تھا، جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کا انحصار روسی گیس پر تھا جبکہ یورپی یونین کی تیل کی ضروریات کا تقریباً 30فیصد روسی تیل سے پورا ہوتا تھا، روس کے ساتھ یورپی یونین کے تجارتی تعلقات میں کمی کے باعث سپلائی چین میں رکاوٹیں آئیں، اہم اشیاء کی قلت اور لاگت میں اضافہ ہوا، روسی گیس اور تیل کی فراہمی میں رکاوٹوں کی وجہ سے یورپ میں توانائی کی قیمتیں بڑھ گئیں، بڑھتی ہوئی توانائی کی قیمتوں نے صنعتوں اور گھریلو صارفین کے اخراجات میں اضافہ کیا اور نتیجے میں معاشی دباؤ بڑھنے لگا، یورپی حکومتوں کے پاس عوامی فلاح اور بہبود کیلئے فنڈز میں کمی آئی، فرانس میں امن و امان کا مسئلہ درپیش ہوا، یوکرین کی بے مقصد جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی یورپی یونین کے کئی ملکوں کو عوامی فلاح کے کئی منصوبے ترک کرنا پڑے۔
دوسری جنگ عظیم اور 90 کی دہائی کے معاشی بحران کے بعد یورپی یونین کی مجموعی صنعتی پیداوار میں زبردست کمی ریکارڈ کی گئی اور جن صنعتوں کا انحصار روسی خام مال پر تھا وہ تباہی کی دہلیز پر پہنچ گئیں، یورپ نے متبادل راستے اختیار کرکے نئی سپلائی چینز قائم کرنے کی کوششیں تو کیں مگر اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی، یوکرین جنگ کے اثرات کے باعث یورپی یونین کے مجموعی جی ڈی پی میں مسلسل دو سالوں سے سست روی ریکارڈ کی جارہی ہے، جن میں جرمنی اور اٹلی قابل ذکر ہیں، یورپی مرکزی بینک کو مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے مجبوراً سود کی شرحوں میں اضافہ کرنا پڑا ہے، جس نے صنعتوں کو مالی بحران کا شکار کیا، صنعت کاروں نے اپنے اخراجات کم کرنے کیلئے لوگوں کو بیروزگار کیا اور پورے یورپ میں بیروزگاری گزشتہ دو سالوں کے دوران ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، اسکا ایک منفی اثر پروڈکٹ کولیٹی پر بھی مرتب ہوا، جسے دنیا بھر میں استعمال کنندہ آئندہ سالوں میں دیکھیں گے، یوکرین جنگ کے بعد یورپی یونین کی معیشت نے مختلف چیلنجز کا سامنا کیا جن میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، سپلائی چین کے مسائل اور مہنگائی شامل ہے لیکن اس سارے منظر نامے میں امریکہ کو توانائی کے مسائل درپیش نہیں آئے کیونکہ اُس کا انحصار روسی ذرائع پر نہیں تھا، یوکرین کی جنگ کا سارا عذاب یورپ نے جھیلا لیکن صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے بحران کو مذاکرات کی میز پر حل کرانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جنگ کی آگ بھڑکانے کیلئے یوکرین حکومت کو ہتھیار دیئے اور فوج کی تنخواہوں کیلئے مالی وسائل فراہم کئے یقیناً یہ نقصان امریکی ٹیکس دہندگان کا ہوا، یوکرین جنگ کو دو سال پانچ ماہ ہوچکے ہیں نتائج کے اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکی مقاصد اس جنگ سے پورے نہیں ہوسکے مگر امریکی عوام کو معاشی جھٹکے لگ رہے ہیں۔
امریکی صدر بائیڈن کے دور حکومت میں گذشتہ سال اکتوبر میں غزہ پر اسرائیل نے چڑھائی کردی اس سے قبل جب حماس نے ایک جوابی حملے میں اسرائیل کے اندر جاکر آپریشن کیا تو صدر بائیڈن نے جھوٹ پر مبنی اسرائیلی اطلاعات پر بھروسہ کرکے ایسے اشتعال انگیز بیانات جاری کئے جس نے غاصب اسرائیل کے جارحانہ حوصلوں کو تقویت پہنچائی اور اس کی خونخوار فورسز نے غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر فضائی طیاروں سے وہ امریکی بم برسائے جو پہاڑوں کا سینہ چاک کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے حالانکہ بائیڈن نے اسرائیلی میڈیا کی جھوٹی اطلاعات پر انحصار کرکے جو اشتعال انگیز بیانات جاری کئے تھے اُن پر معافی مانگ لی مگر امریکی صدر جوبائیڈن کی کتاب زندگی کے سیاہ ترین واقعات نے قرطاس ابیض کو بھی سیاہ کردیا ہے اور شاید جو بائیڈن کے حصّے میں آنے والی ذلت و رسوئی کی ایک وجہ غزہ کے معصوم بچوں کی آہ و زاری ہے جو سب کچھ کھونے کے بعد اللّہ تعالیٰ سے فریاد کررہے ہیں، اسرائیلی فضائی نے غزہ کے تمام مستقل اور عارضی ہسپتالوں پر سنگین فضائی حملے کئے نومولود بچے شہید ہوئے اور یہ سب کچھ بائیڈن اور اُسکی انتظامیہ دیکھتی رہی، 1948ء کے بعد سے فلسطینیوں سے متعلق کسی بھی امریکی صدر کی پالیسیاں انصاف اور انسانی اقدار کے مطابق نہیں رہیں ہیں لیکن جو بائیڈن نے تو تمام حدیں پار کردیں تاکہ وہ آئندہ مدت کیلئے صدارتی الیکشن لڑیں تو یہودی لابی اُن کیساتھ کھڑی ہو مگر قدرت نے فیصلہ ظالم کے خلاف سنادیا ہے، صدر جو بائیڈن کا ایک اور سیاہ کارنامہ 24 کروڑ لوگوں کی زندگیوں کو بتدریج برباد کررہا ہے، جوبائیڈن انتظامیہ نے پاکستان میں عمران خان حکومت کو اپنی ضد اور غرور کی وجہ سے گرا دی، جس نے پاکستانی معیشت پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس کے نتیکے میں کم وبیش 20 کروڑ انسانوں کیلئے مصائب کے دروازے واہ کردیئے ہیں، صدر جو بائیڈن نے اپنی نائب صدر بھارتی نژاد کملا دیوی کو آئندہ صدارتی انتخابات کیلئے نامزد کیا ہے مگر ابھی ڈیموکریٹس نے انہیں صدارتی اُمیداوار بنانے کا فیصلہ کرنا ہے مگر یہ بات عیاں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کملا دیوی کا آسانی کیساتھ مقابلہ کرکے کامیاب ہوجائیں گے۔