تحریر : محمد رضا سید
امریکی صدر جو بائیڈن نے ملک بھر کی جامعات میں غزہ پر جاری بمباری کے خلاف احتجاج اور پولیس کریک ڈاؤن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا جابرانہ ریاست نہیں لیکن قانون کی حکمرانی کو لازمی یقینی بنانی چاہیئے، جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے سے ٹیلیویژن خطاب میں کہا کہ یونیورسٹی کے کیمپسوں میں یہودی دشمنی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، پرامن احتجاج کے حق اور تشدد کو روکنے کی ضرورت کے درمیان توازن ہونا ضروری ہے، جو بائیڈن کو کیمسپوں میں ہونے والے ان مظاہروں پر سیاسی منظر نامے پر ہر جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں اس احتجاج کے دوران پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے، امریکی صدر نے مزید کہا کہ امریکی جامعات میں کسی کے بھی خلاف نفرت انگیز تقاریر یا کسی بھی قسم کے تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، یہ سراسر غلط ہے، جمعرات کو علی الصبح لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں فلسطینیوں کے حق میں کیے جانے والے مظاہرے میں ہیلمٹ پہنءے سینکڑوں اہلکاروں نے کیمپس کا گھیراؤ کرنے کے بعد مظاہرین کو گرفتار کر کے احتجاج کو ختم کردیا، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں علی الصبح کریک ڈاؤن سے قبل پولیس نے کیمپس کے اندر جانے سے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر بار بار اعلان کر کے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ احتجاجی زون کو خالی کر دیں، پولیس نے اب تک امریکہ بھر میں جامعات اور کالجوں میں 1,500 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا ہے،واضح رہے 60 اور 70 کی دہائیوں میں ویتنام جنگ کے خلاف مظاہروں کے بعد فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف امریکی جامعات میں طلبہ کے احتجاج نے امریکی انتظامیہ کو ہلاکر رکھ دیا ہے، جس کا دئرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔
امریکی مقتدرہ کیلئے جمہوریت، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی اپنے مفادات اور اسرائیل کی حمایت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے، جس جابرانہ انداز میں امریکی یونیورسٹیوں میں پولیس کی جانب سے طلبہ کے خلاف تشدد کیا گیا اُس کے امریکی مقتدرہ کے بدنما چہرے کو بےنقاب کرنے کیساتھ ساتھ دنیا کو یہ باور کرایا ہے کہ طاقت کے سامنے اخلاقیات اور معاشرتی اُصولوں کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے، سامراجی مزاج اور سرمایہ دار نظام کے پروردہ عناصر کیلئے جھوٹ بولنا اور جھوٹا پروپیگنڈا کرنا اخلاقی جرم نہیں ہوتا، اسی لئے امریکی طلبہ کی حق پرستانہ تحریک کے خلاف امریکی صدر جوبائیڈن جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں اور پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنے والے طلبہ یہودیوں کے خلاف نفرت پیدا کررہے ہیں، یہ آواز سب سے پہلے تل ابیب سے بلند ہوئی تھی اس جھوٹی آواز کو امریکی سامراج نے اپنی آواز بنالی، غاصب اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف امریکی طلبہ کی تحریک سے خوفذدہ ہیں، اسی لئے اُنھوں نے کھلے الفاظ میں امریکی مقتدرہ پر زور ڈال دیا کہ وہ امریکی جامعات سے فلسطینیوں کے حق میں اُٹھنے والے آواز کو جبر اور تشدد کے ذریعے دبائیں، جمعرات 2 مئی کو دنیا نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعویدار ملک میں سکیورٹی فورسز کے تشدد کے وہ مناظر دیکھے جو تیسری دنیا کے چند ملکوں میں حقوق اور ذاتی عزت کیلئے کھڑے ہونے والے لوگوں کیساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
امریکی جامعات میں سر شگافتہ طلبہ کو دیکھ کر اسلام آباد کی سڑکوں پر رینجرز کے ہاتھوں عوام پر ہونے والے تشدد کی یاد تازہ ہوگئی، پاکستان میں بھی عوام اپنے حقوق کیلئے باہر نکلے تھے، امریکی جامعات میں ریاستی فورسز کے تشدد کے بعد تو پاکستان اور امریکہ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، امریکہ بھر کی یونیورسٹیاں غاصب اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر مہینوں سے جاری نسل کشی کے خلاف احتجاج میں شامل ہیں، امریکہ کی ریاستی فورسز کے تشدد اس احتجاج کو کم کرنے کے بجائے اس میں شدت پیدا کرئے گی، پولیس کی بھاری موجودگی میں، اسرائیل مخالف مظاہرین نے بدھ کے روز نیویارک کی فورڈھم یونیورسٹی میں نعرے لگائے اور فلسطینی پرچم لہرائے جب کہ لاس اینجلس میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے کیمپس میں فسادات سے نمٹنے والی پولیس نے سینکڑوں کی تعداد میں جمع افراد پر تشدد کیا، ایک دن پہلے، یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کے کیمپس میں اسرائیل مخالف مظاہرین کے خلاف فورسز نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں اور متعدد طلبہ کو گرفتار کر لیا، امریکی پولیس نے کئی کالجوں پر دھاوا بول دیا اور مزید گرفتاریاں کیں جب کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے حملے کے خلاف احتجاج کیمپسز میں بھڑک اُٹھیں ہیں، تازہ ترین گرفتاریاں یونیورسٹی آف ٹیکساس، ڈیلاس میں کی گئیں، جہاں کم از کم 20 طلباء کو پولیس کی تحویل میں لے لیا گیا، نتین یاہو کے ہاتھوں لگائی گئی آگ کو امریکی مقتدرہ اپنے ملک میں لانے کے بجائے آگ کو بجھانے کی کوشش کرئے جو وہ نہیں کررہی ہے بلکہ جو بائیڈن انتظامیہ غاصب اسرائیل کو آگ بھڑکانے کیلئے اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کررہی ہے۔