اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکہ اور بعض یورپی ملکوں کے دباؤ کو نظر انداز کر کے افزودہ یورینیم کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرلیا ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کیلئے درکار افزودگی سے بہت قریب ہے، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 26 اکتوبر 2024ء تک ایران کے پاس 182.3 کلوگرام یورینیم موجود تھا جس کی افزودگی کی سطح 60 فیصد ہے، یہ مقدار اگست کی آخری رپورٹ سے 17.6 کلوگرام زیادہ ہے، جوہری ہتھیار کیلئے 90 فیصد تک افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے، جب کہ 60 فیصد افزدوہ یورینیم کو 90 فیصد تک لے جانا تکنیکی طور پر زیادہ دور نہیں ہے، جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے کے مطابق نظریاتی طور پر 60 فیصد تک افزودہ 42 کلوگرام یورینیم کو مزید افزودہ کر کے ایک جوہری ہتھیار بنانا ممکن ہے، یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حالیہ مہینوں میں غزہ جنگ کے پس منظر میں اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے کے خلاف میزائل حملے کیے ہیں، ایران نے گزشتہ ہفتے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی کے تہران کے دورے کے موقع پر اپنے یورینیم کے ذخائر کو 60 فیصد افزودگی تک نہ بڑھانے کی پیش کش کی تھی۔
آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ایرانی عہدے داروں کے ساتھ مذاکرات میں یورینیم کے ذخائر کی 60 فیصد تک افزدوگی پر بات چیت ہوئی اور تکنیکی تصدیق کے پہلوؤں پر غور کیا گیا، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گروسی کی ایران سے واپسی کے ایک روز کے بعد 16 نومبر کو معائنہ کاروں نے تصدیق کی کہ ایران نے اپنے زیر زمین جوہری مراکز فردو اور نطنز میں یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کرنے کا عمل کو روکنے کے اقدامات شروع کر دیئے ہیں، یہ رپورٹ اس ہفتے ویانا میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے باقاعدہ اجلاس سے پہلے سامنے آئی ہے، اہم سفارتی ذرائع کے مطابق امریکہ کی حمایت کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور جرمنی اس ہفتے آئی اے ای اے کے بورڈ کے اجلاس میں ایک قرارداد لا رہے ہیں جس میں ایران کی جانب سے تعاون میں عدم دلچسپی پر مذمت کی چاہتے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے منگل کو واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم ایران کو جوابدہ بنانے کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اعلیٰ سطح کے افزودہ یورینیم کے ذخائر جمع کر رہی ہے جس کا کوئی قابل اعتماد غیر فوجی مقصد نہیں ہے اور وہ آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون بھی نہیں کر رہی۔