امریکی صدر جو بائیڈن نے ہفتے کے روز ایک ریلی کے دوران ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے دائیں کان میں گولی لگنے کے بعد سیاسی تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا اور بائیڈن کی انتخابی مہم کی ٹیم نے ٹرمپ پر تنقید پر مبنی پوسٹرز سمیت تمام سیاسی معاملات معطل کردی ہیں، صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ میں اس طرح کے تشدد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے، بائیڈن نے مزید کہا کہ انہیں اس معاملے پر مکمل طور پر بریف کیا گیا ہے اور وہ ٹرمپ سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، بائیڈن نے کہا کہ ہر کسی کو اس کی مذمت کرنی چاہئے، حملہ آور کا نام، سیاسی جھکاؤ اور محرک معلوم نہیں ہے، یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کے خیال میں فائرنگ قتل کی کوشش تھی، بائیڈن نے کہا میری ایک رائے ہے لیکن میرے پاس تمام حقائق نہیں ہیں وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ بائیڈن نے بعد میں 78 سالہ ٹرمپ سے فون پر بات کی لیکن انہوں نے اس کال کے بارے میں تفصیل سے نہیں بتایا، جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی ٹیم اس وقت کی سنگینی کے حوالے سے جلد از جلد اپنے ٹیلی ویژن اشتہارات کو ہٹانے کے لئے کام کر رہی ہے۔
بائیڈن کا سیاسی مستقبل اس وقت سے شکوک و شبہات کا شکار ہے جب 27 جون کو ٹرمپ کے خلاف ہونے والے مباحثے کے بعد ان کی اپنی ہی پارٹی کی جانب سے مستعفی ہونے اور نومبر میں ایک نوجوان امیدوار کو میدان میں اتارنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، حالیہ ہفتوں میں بائیڈن کی انتخابی مہم نے ٹرمپ کو مجرم قرار دینے کی اپنی سب سے جارحانہ کوشش کا آغاز ایک نئے ٹیلی ویژن اشتہار کے ساتھ کیا جس میں ٹرمپ کی مجرمانہ سزا پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، یہ اشتہار ریاستوں میں 50 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا حصہ تھا اور ٹرمپ کی قانونی پریشانیوں سے بچنے کیلئے اس معاملے پر غور کرنے میں ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد حکمت عملی میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، ٹرمپ کو 30 مئی کو نیویارک کی جیوری نے 2016 کے انتخابات سے قبل ایک پورن اسٹار کو خاموش کرانے کے لئے دی گئی رقم چھپانے سے متعلق کاروباری ریکارڈ کو غلط ثابت کرنے کے الزام میں 34 الزامات میں سزا سنائی تھی، فائرنگ کے واقعے کے بعد سینیٹر جے ڈی وینس نے بائیڈن کی انتخابی مہم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ٹرمپ کو ایک مطلق العنان شخص کے طور پر پیش کر رہے ہیں جسے ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے، ریپبلکن پارٹی کے سابق صدر کی انتخابی مہم کے دوران بیان بازی نے بارہا ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو وہ ریاست کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ دشمنوں کو نشانہ بنا کر جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔