تحریر: محمد رضا سید
برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ناروے نے اسرائیل کے سکیورٹی کے وزیر ایٹامار بن گویر اور وزیر خزانہ بیزیل اسموٹریچ پر سفری پابندی اور اثاثے منجمد کرنے کا اعلان کیا ہے، اسرائیل نے گزشتہ رات برطانیہ کو اپنی حکومت کے دو وزراء پر پابندی لگانے اور ان پر فلسطینیوں کے خلاف تشدد بھڑکانے کا الزام لگانے پر تنقید کی تھی، وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے کہا کہ یہ اشتعال انگیز ہے کہ ان پر پابندی عائد کی گئی ہے، مسٹر اسموٹریچ اور مسٹر بین گویر دونوں کا تعلق اسرائیل کی دائیں بازو کی سیاست سے ہے جو فلسطینیوں اور مسلم آثار کو ختم کرنے پر مبنی نظریات رکھتے ہیں اور تشدد کے ذریعے یہودی نظریات کا تسلط چاہتے ہیں، پابندیوں کا سامنا کرنے والے دونوں وزراء کا تعلق اُن جماعتوں سے ہے جو بنجمن نیتن یاہو کی کمزور مخلوط حکومت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، دونوں کو غزہ کی جنگ پر سخت گیر موقف کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، مسٹر اسموٹریچ نے غزہ میں امداد کی اجازت دینے کے خلاف مہم چلائی ہے اور مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کیلئے نئی بستیوں کی تعمیر کیلئے فنڈز مختص کئے، جنہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے، گزشتہ ماہ برطانوی سیکرٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے مسٹر اسموٹریچ کے فلسطینیوں کے خلاف تشدد پر اُکسانے پر مبنی تبصروں کو نوٹس کیا تھا جس میں انہوں نے اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسلی صفائی کا دفاع کیا تھا، اسموٹریچ نے کہا کہ انہیں پابندیوں کا علم مغربی کنارے کی ایک نئی یہودی بستی کا افتتاح کرتے ہوئے ہوا، اُنھوں نے کہا کہ اسرائیل کی مخلوط حکومت یہودی آبادکاروں کیلئے بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہے جبکہ اسرائیلی وزیر بن گویر غزہ کے باشندوں کو دوبارہ آباد کرنے کا مطالبے کی مخالفت کررہے ہیں اور یروشلم میں مسجد الاقصی کو مسمار کرنے کی تحریک چلارہے ہیں، برطانوی حکومت نے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ اسرائیلی وزراء کے اس جوڑے کو اب فلسطینی شہریوں کے خلاف بار بار تشدد پر اکسانے کی سزا دی گئی جوکہ فوری طور پر نافذ العمل ہے، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور ناروے کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں برطانیہ کے سکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا اسرائیلی وزراء ایٹامار بن گویر اور بیزیل اسموٹریچ نے انتہا پسندانہ تشدد اور فلسطینیوں کے خلاف سنگین انسانی حقوق کا ارتکاب کیا ہے یہ عمل ہمارے لئے قابل قبول نہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نے اب کارروائی کی ہے تاکہ ذمہ داروں سے بازپُرس کی جاسکے، متذکرہ بالا ترقی یافتہ ملکوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی، حماس کے ہاتھوں بقیہ یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنے کیساتھ دو ریاستی حل کیلئے کوششوں کا اعلان کیا۔
غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم کو نمایاں کرنے والی دوست مغربی ممالک کی کارروائی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو سیاسی دباؤ میں لانے کیلئے اہم ثابت ہوگی تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے اسرائیلی حکومت کے انسانیت کے خلاف اقدامات خاص طور پر غذائی امداد کو بند کرکے اور بھوکے فلسطینیوں پر گولیاں چلانے کے عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے روایتی طور پر اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہوئے دونوں اسرائیلی وزراء کے خلاف برطانیہ سمیت متعدد مغربی ملکوں کی پابندیوں کی مذمت کی ہے، اسرائیلی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ اُسے شدید قسم کے عالمی دباؤ کا سامنا ہے اس لئے کہ تل ابیب کھلم کھلا فلسطینیوں کی نسلی صفائی کی مربوط کارروائیوں کو آگے بڑھا رہی ہے، صرف غزہ میں نہیں بلکہ غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس میں بھی فلسطینیوں کے خلاف انسانی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے، یاد رہے کہ اسرائیلی وزراء پر پابندی لگانے والے ممالک اسرائیل کے اتحادی اور اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک ہیں جبکہ ان ملکوں کی مالی مدد تل ابیب کو انسانیت کے خلاف جرائم پر آمادہ کرتی ہے پھر یہ دکھاوا کیوں ہے؟ ایک نقطہ نظر یہ ہوسکتا ہے کہ اسرائیل نے گزشتہ 18 ماہ کی جنگ میں انسانیت کے خلاف وہ وہ جرائم انجام دیئے ہیں جو اس سے قبل منظر عام پر نہیں آسکے یا مغربی ملکوں کی عوام سے چھپائے جاتے رہے تھے، مغربی ملکوں کے عوام نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی بربریت کے خلاف جس غم و غصّے کا اظہار کیا اور سڑکوں پر نکلے وہ یمن اور کسی حد تک ایران کے علاوہ مسلم دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آیا، مغربی حکومتوں کو اپنی عوام کے دباؤ کا سامنا تو تھا ہی ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپی ملکوں اور کینیڈا کو اپنی پشت کا بوسہ کرنے والوں سے تعبیر کردیا، مغربی ملکوں نے اسرائیلی وزراء کے خلاف پابندیاں عائد کرکے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ عالمی سیاست میں اگر وہ امریکہ کا ساتھ نہیں دیں تو اُسے کس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، دوسرا نقطہ نظر اسرائیل کی شدت پسند دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کو اُسکی اوقات میں لانا ہے، جس نے متذکرہ مغربی ممالک غزہ کیلئے غذائی امداد کی روک ٹوک کے بغیر فراہمی کے مسلسل مطالبے کو نظرانداز کیا، تل ابیب حکومت نے غذائی امداد کو گیارہ ہفتوں سے روکے رکھا اور پھر اجازت دی تو غذائی امداد کو اپنے مذموم عزائم کے تحت غزہ میں داعش اور امریکی ادارے کے ذریعے تقسیم کرائی گئی اور اس دوران غذائی امداد حاسل کرنے والے سینکڑوں فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے گولیاں مار پر ہلاک کردیا جیسے شکاری اپنے شکار پر گولیاں چلاتے ہیں، مغربی ملکوں کو داعش سے ہمیشہ خطرہ رہا ہے فرانس، کینیڈا، اسٹریلیا، برطانیہ کو داعش کی دہشت گردی کا سامنا رہا ہے، اسرائیلی حکومت غزہ مین حماس کے خلاف داعش کو اُسی طرح استعمال کرنے کیلئے مضبوط بنارہی ہے جس طرح عراق اور شام میں اسلحہ اور مالی مدد فراہم کرکے دونوں ملکوں میں رجیم تبدیل کرنے مہم جوئی کی تھی تاکہ اِن ملکوں میں ایران کا اثر ونفوذ ختم کیا جاسکے، 2017ء میں نیویارک ٹائمز اپنی ایک تحقیقی اسٹوری میں بتایا کہ اسرائیلی ہسپتالوں میں داعش کے جنگجوؤں سمیت بشار الاسد حکومت کے خلاف دہشت گردی میں ملوث چار ہزار سے زائد زخمیوں کا علاج کیا، اسرائیل سرکاری طور پر داعش کی حمایت کو اسرائیلی قومی سلامتی سے جوڑتا ہے، مغربی ملکوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوکر داعش کو ایک بار پھر مغرب کیلئے خطرہ بنادے گا، یہاں اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ داعش نے امریکہ اور اسرائیل کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنایا جبکہ وہ مشرق وسطیٰ سے نکل کر یورپ کے متعدد ملکوں میں تشدد پر مبنی حملے کرتی رہی ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کے خلاف اندرونی اور بیرونی سطح پر غم و غصْہ بڑھتا جارہا ہے، اسرائیلی معاشرے میں الٹرا آرتھوڈوکس کئی دہائیوں ملک میں سیاسی اور سماجی الجھاؤ کا باعث بن رہے ہیں، اس کمیونٹی کے رہنما اپنے لوگوں کو کسی بھی ایسی چیز سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے الگ تھلگ اور سخت نظریات میں خلل ڈال سکتی ہے، ہریدی پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی معاشرے کو الٹرا آرتھوڈوکس سے لاحق خطرات کو ختم کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے کیونکہ 1979 کے بعد سے اس کمیونٹی کی تعداد میں 500 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، پچھلے ہفتے یونائیٹڈ تورہ یہودیت کی اتحادی حکومت میں دو الٹرا آرتھوڈوکس پارٹیوں میں سے ایک نے وزیراعظم نیتن یاہو سے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کنیسٹ(پارلیمنٹ) کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا، گذشتہ پیر کو دوسری پارٹی شاس نے بھی اس مطالبے کی حمایت کردی ہے، شاس کی شمولیت کا مطلب یہ ہے کہ مسٹر نیتن یاہو کے پاس اب کنیسٹ میں اکثریت نہیں رہے گی، یہ نیتن یاہو حکومت کیلئے ایک تباہ کن دھچکا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس حکومت گرانے کیلئے آسانی سے مطلوبہ تعداد میسر آجائے گی، نیتن یاہو کے مخالفین کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کیلئے ممکنہ بل کو کس بہتر طریقے سے لایا جائے تاکہ آئندہ عام انتخابات نیتن یاہو کے اقتدار کے چراغ کو ہمیشہ کیلئے بجھا سکے، اس طرح کے بل کو ابتدائی ووٹ اور پھر تین ریڈنگ پاس کرنا ہوں گی، وزیراعظم نیتن یاہو اسرائیل کی تاریخ میں اب تک کے سب سے کامیاب سیاست دان ہیں، انہوں نے کئی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا، اسرائیلی رہنما بشینسکی نے کہا کہ اسرائیل کے اندرونی اور بیرونی سطح پر حالات بہت خراب ہوچکے ہیں، نیتن یاہو کی موجودہ پوزیشن بہت کمزور ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایران پر حملے کیلئے اصرار کررہے ہیں تاکہ اُن کی ملک کے اندر پوزیشن بہتر ہوجائے لیکن اسرائیلی وزراء پر پابندیاں سے اندازہ ہورہا ہے کہ عالمی لیڈرز انہیں ہٹانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
With every new follow-up
Subscribe to our free e-newsletter
جمعہ, جون 13, 2025
رجحان ساز
- →عالمی مالیاتی ادارے نے دفاع، آئی پی پیز اور ایس آئی ایف سی کیلئے ضمنی گرانٹ پر اعتراض کردیا
- ایران پر اسرائیلی حملے کا فی الحال امکان نہیں لیکن میں پرامن حل تک پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں، ٹرمپ
- عسکری مہم جوئی کسی کے مفاد میں نہیں ہوگی، ایٹمی مذاکرات امریکہ اور ایران کیلئے بہترین آپشن ہیں
- برطانیہ و پانچ مغربی ملکوں کی اسرائیلی وزراء پر پابندیاں پس پردہ حقائق تل ابیب داعش تعلقات ہیں؟
- قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کا شدید احتجاج، بجٹ 2025 مسترد کردیا !
- بجٹ 2025 : نان فائلرز گاڑی و جائیداد نہیں خرید سکیں گے، نقد رقم نکلوانے پر اضافی ٹیکس عائد
- تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کی تجویز، الیکٹرک گاڑیوں کو ترجیح دینے کیلئے پالیسی کا اعلان
- بجٹ2025: چودہ ہزار ارب کا ٹیکس ٹارگٹ، دفاع پر 2550 ارب خرچ ہونگے اور سود کی ادائیگی کیلئے 8207 ارب روپے مختص سولر پر 18 فیصد ڈیوٹی لگانے کی تجویز
برطانیہ و پانچ مغربی ملکوں کی اسرائیلی وزراء پر پابندیاں پس پردہ حقائق تل ابیب داعش تعلقات ہیں؟
ایران پر حملے کیلئے اصرار کرکے نیتن یاہو ملک کے اندر اپنی خراب پوزیشن بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن اسرائیلی وزراء پر پابندیاں سے اندازہ ہورہا ہے کہ عالمی لیڈرز انہیں ہٹانے کا فیصلہ کرچکے ہیں