پاکستان کے جنوبی صوبہ بلوچستان میں حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے ہیں تاہم صوبے میں خوف وہراس پایا جاتا ہے، سڑکوں پر نقل و حمل کم ہے جبکہ پاکستان اور ایران کا بارڈر بند ہونے کی وجہ سے زائرین اربعین کو مشکلات کا سامنا ہے، مقامی حکام نے کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی قومی شاہراہ کو دو روز بعد ٹریفک کے لئے کھول دیا، بلوچستان میں حالیہ پرتشدد حملوں کے نتیجے میں قومی شاہراہ پر لیویز کی گشت اور سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر و دیگر حکام موقع پر موجود ہیں، اسسٹنٹ کمشنر مستونگ محمد اکرم حریفال نے میڈیا کو بتایا کہ مسلح افراد نے کھڈ کوچہ لیویز تھانے پر حملہ کیا جسے ناکام بنا دیا گیا، اطلاعات کے مطابق مسلح افراد نے لیویز تھانے اور عزیز آباد کے مقام پر فائرنگ کی تھی، تاہم سکیورٹی فورسز کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور فرار ہو گئے، حملے میں کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا، شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے گذشتہ دنوں کئی مقامات پر خودکش اور مسلح حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، ایک بیان میں تنظیم نے مستونگ میں کھڈکوچہ لیویز تھانے کے اہلکاروں کو یرغمال بنانے اور تھانے پر قبضہ کرنے کا دعوی کیا تھا، تاہم حکام نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی مسلح تنظیم نے کھڈ کوچہ کے مقام پر مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کا بھی اعتراف کیا۔
واضح رہے بلوچ عسکریت پسندوں نے ایک ہی دن میں موسیٰ خیل، مستونگ، بولان اور قلات میں مختلف واقعات میں 39 افراد کو قتل کردیا تھا جب کہ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 21 شدت پسند بھی مارے گئے تھے، 14 سکیورٹی اہلکاروں نے بھی جان گنوائی، بلوچستان کے متعدد اضلاع میں دہشت گرد کارروائیوں کے آٹھ واقعات کے خلاف مقدمات محکمہ انسداد دہشت گردی کے تھانے میں درج کر لئے گئے، پاکستانی فورسز حملوں میں ملوث عسکریت پسندوں کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں، صوبہ بلوچستان میں عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکام سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے دو دہائیوں سے جاری تنازع کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔