تحریر: محمد رضا سید
بلوچستان کو دو روز تک شدت پسندوں نے یرغمال بنائے رکھا اور اس دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والے محنت کش خاندانوں کا کوئی پُرسان حال نہیں تھا نہ فوج نظر آئی اور نہ ایف سی پنجابیوں کے قتل عام کو رکوا سکی، بے یار ومددگار پنجابی شہری زندگی کی بازیاں ہارتے رہے اس دوران ریاست کی عملداری کہیں نظر نہیں آئی، کون ہے اسکا ذمہ دار کیا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو موردالزام تہرایا جاسکتا ہے، جنکی ساری توجہ سوشل میڈیا کو فتنہ قرار دینے میں لگی ہوئی ہے، بقول علامہ اقبال فتنہ تو نعرہ تکبیر بلند کرنے والے بھی ہوتے ہیں، تاریخ اس کی گواہ ہے یزیدی فوج جب کربلا میں خاندان رسالتؐ کے چشم و چراغ بجھا رہی تھی تو نعرہ تکبیر کی آواز گونجتی تھی، کتنی ہی جنگوں میں دونوں طرف اسلام کی مقتدر شخصیات تھیں اور ایک دوسرے کو قتل کرکے نعرہ تکبیر بلند کرتی رہی ہیں، سوشل میڈیا کو ممکن ہے فتنہ پرور استعمال کرتے ہوں لیکن خود سوشل میڈیا فتنہ نہیں یہ عام لوگوں کی آواز ہے، اب تو حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں بھی پاکستان کو اس بابت تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں، بلوچستان میں شدت پسندوں نے تو انٹرنیٹ استعمال کرکے قتل عام نہیں کیا تھا کیونکہ انٹرنیٹ ملک کے بیشتر حصّوں میں بند ہے یا سست روی کا شکار ہے، بلوچستان میں پنجابی محنت کشوں کے قتل عام کا ذمہ دار وزیراعظم کو ٹہرائیں یا وزیراعلیٰ بلوچستان کو دونوں ہی فارم 47 کی پیداوار ہیں، انہیں اپنی حکمرانی کی زیادہ فکر ہےکون نہیں جانتا بلوچستان میں اسمبلیوں کی نشستیں فروخت ہوئی ہیں، چیف جسٹس صاحب نہ جانے کس کے حکم پر الیکشن آڈٹ کرانے کا معاملہ زیر سماعت نہیں لارہے ہیں، پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی تو میانوالی میں اپنے ہم مسلک افراد کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، وہ بلوچستان میں پنجابی محنت کشوں کو کیسے تحفظ فراہم کرتے، عام عوام کسی صوبے کے ہوں سکیورٹی فورسز ہوں یا مقتدرہ کسی کو اِن کی فکر نہیں ہوتی لیکن اگر گل احمد گروپ سے تعلق رکھنے والی خاتون غریب پاکستانیوں کو تیز رفتاری کی بنا پر کچل دے تو اُس قاتل خاتون کو پروٹوکال دینے کیلئے پولیس اور رینجرز پہنچ جاتی ہے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پنجابی شہریوں کے قتل عام کے بعد وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بالآخر کوئٹہ پہنچے تو وہاں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے چھپ کر حملہ کیا ہے یعنی اگر وزیر موضوف کو دہشت گرد ای میل کرکے بتادیتے تو وہ اس قتل عام کو روک سکتے تھے لیکن اُنھوں نے اربوں روپوں کا بجٹ لینے والی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا کوئی ذکر نہیں کیا، جو اس اچانک حملے کی پیشگی اطلاع نہیں دے سکیں تاکہ سکیورٹی فورسز قبل از وقت پنجابی شہریوں کا قتل عام روک سکتیں، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں کسی فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں ہے، یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، لگتا ہے مسٹر نقوی آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان کو ایس ایچ او بنانا کر بلوچستان میں تعینات کرنا چاہتے ہوں گے کیونکہ ڈاکٹر عثمان اُن کے ہم خیال ہیں، محسن نقوی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے جو فیصلہ کریں گے، وفاقی حکومت اس کی حمایت کرے گی، وزیراعلیٰ بلوچستان کو دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے جس بھی قسم کی مدد درکار ہوگی وہ انھیں فی الفور فراہم کی جائے گی اور کی جاتی رہی ہے، انھوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات سے وہ ہمیں ڈرا سکتے ہیں انھیں بہت جلد ایک سخت پیغام مل جائے گا، محسن نقوی نے کہا کہ بلوچستان سب سے بڑا صوبہ ہے، دہشت گرد کسی چھوٹے علاقے میں کارروائی کرتے ہیں، اب اتنے بڑے علاقے میں جتنی بھی فورسز تعینات کر دی جائیں کام مُشکل ہوتا ہے، وزیر اعظم کہتے ہیں کہ شدت پسندوں سے بات چیت نہیں ہوسکتی وزیرداخلہ کہتے ہیں بلوچستان جغرافیائی طور پر بڑا صوبہ ہے فورسز تعینات نہیں کرسکتے تو پھر عوام کو تحفظ کون فراہم کرئے گا؟ واضح رہے پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے یہ حملے 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کے حالیہ حملوں میں 39 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی جبکہ پاکستانی فوج کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے، جن میں 10 فوجی اہلکار بھی شامل ہیں، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں جسے نظرانداز کردیا جائے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے موسیٰ خیل سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم شہریوں کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے گا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان دہشت گردوں نے اپنا حشر لسبیلہ میں دیکھ لیا جہاں سکیورٹی فورسز نے کیمپ کے گیٹ پر سب کو ہلاک کردیا گیا، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ماورائے عدالت ہلاکتوں کو جس خوشی کیساتھ قبول کیا ہے وہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو موقع فراہم کرئے گی کہ وہ علیحدگی پسندوں کیلئے ہمدردی حاصل کریں، کون ہے جو تصدیق کرئے کہ مارے گئے افراد دہشت گرد تھے یا عام بلوچی لوگ، اسلام آباد میں موجود امریکی سفارتخانے کے ترجمان جوناتھن لالی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بلوچستان میں حملوں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں اور عوام کو نشانہ بنایا گیا، ہمارے دل ان حملوں میں جاں بحق افراد کے خاندانوں اور پیاروں کے لئے غمزدہ ہیں، بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا، یہ آنسو مگر مچھ کے آنسو ہیں، بلوچستان میں شدت پسندی کس کے فائدے میں ہے سب اچھی طرح جانتے ہیں، امریکہ نے بلوچستان میں دہشت گردی کے حوالے سے ہمیشہ علحیدگی پسندوں کا ساتھ دیا، ایسے حالات میں جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے بلوچستان میں بدامنی سے فائدہ سب سے زیادہ امریکہ کو ہوگا، ابھی لاکھوں زائرین اربعین امام حسینؑ کو بلوچستان سے گزر کر کراچی، اندرون سندھ اور پنجاب جانا ہے بلوچستان میں بدامنی سے اربعین آپریشن متاثر ہوگا، ایران پاکستان سرحدی راہداری پر زائرین کا دباؤ بڑھے گا اور اسکا بوجھ ایرانی حکومت کو برداشت کرنا ہوگا، بلوچستان میں بدامنی کا خالص فائدہ امریکہ کو پہنچے گا۔