بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں اتوار کو دوسرے روز بھی سکیورٹی فورسز نے قومی شاہراہیں بند رکھیں، یہ شاہراہیں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام ضلع گوادر میں بلوچی راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) میں دوسرے علاقوں سے لوگوں کی شرکت کو روکنے کے لئے حکومت کی جانب سے بند کی گئی ہیں، حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ چونکہ گوادر میں اجتماع کے انعقاد کی اجازت نہیں لی گئی ہے اس لئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قافلوں کو گوادر جانے سے روک دیا گیا ہے، دوسری جانب گذشتہ روز کوئٹہ سے جانے والے قافلے پر فائرنگ کے خلاف اتوار کو مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے، ہڑتال کے علاوہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کی کال بھی دی گئی ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے بلوچ قومی اجتماع ساحلی شہر گوادر میں اتوار کی شام منعقد ہو رہا ہے، گوادر شہر کو جانے والی تمام شاہراہوں بند ہونے کے علاوہ گوادر میں موبائل فون سروس کے علاوہ پی ٹی سی ایل کے فون بھی کام نہیں کر رہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ ایک طرف حکومت گوادر میں اس اجتماع کو منعقد نہیں کرنے دے رہی ہے تو دوسری طرف گوادر شہر میں موبائل فون نیٹ ورک کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی سی ایل کے نیٹ ورک کو بھی بند کیا گیا ہے۔
کوئٹہ سے جو قافلہ گذشتہ روز گوادر کے لئے نکلا تھا وہ بدستور کوئٹہ سے اندازاً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع مستونگ میں کوئٹہ کراچی ہائی وے پر موجود ہے، اس قافلے پر گذشتہ روز اس مقام کے قریب فائرنگ کی گئی تھی جس میں مجموعی طور پر 14 افراد گولی لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے تھے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے فائرنگ کا الزام فرنٹیئرکور پر عائد کیا گیا ہے، تاہم حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے فائرنگ کی اطلاعات غیر مصدقہ ہیں، جب بیبرگ بلوچ سے اس قافلے کی کوئٹہ سے آگے نہ بڑھنے کی وجوہات پوچھی گئیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں جبکہ دوسری طرف قافلے میں شامل گاڑیوں کے ٹائروں کو بھی فائرنگ کرکے ناکارہ بنادیا گیا، انھوں نے بتایا چونکہ راستوں کی بندش کی وجہ سے ان گاڑیوں کے ٹائر نہیں منگوا سکتے اس لئے قافلے کے شرکا نے مستونگ میں ہی دھرنا دیا ہوا ہے۔