تحریر: محمد رضا سید
ایران نے کہا ہے کہ اگر اسے بیرونی طاقتوں سے خطرہ محسوس ہوا تو وہ اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکال دیں گا، یہ انتباہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایران عمان کی وساطت سے امریکہ کے ساتھ ہفتے کو مذاکرات کا آغاز کررہا ہے، ایران کا ردعمل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر سنجیدہ بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے درست مانا جارہا ہے، صدر ٹرمپ ایران سے جوہری مسئلے پر مذاکرات کے خواہشمند بھی ہیں اور مسلسل دھمکیاں بھی دے رہے ہیں، جمعرات کے روز صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ایران کیساتھ مذاکرات ناکام ہوئے تو اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی قیادت کرئے گا، صدر ٹرمپ کی جانب سے مسلسل بیہودہ دھمکیوں کے باوجود ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا کہ جوہری معاملے کو حل کرنے کیلئے سفارت کاری کے جس راستے کا انتخاب تہران کرچکا ہے اُس میں وہ مخلص ہے، اُنھوں نے مزید کہا کہ احتیاط اور حقیقی ارادے کے ساتھ اس سے رجوع کرنا فریقین کیلئے درست فیصلہ ثابت ہوگا، اس بیان میں بقائی نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کو مذاکرات پر ایران کی آمادگی پر شکر گزار ہونا چاہیے حالانکہ امریکہ ایران کے خلاف منفی اور جارحانہ زبان استعمال کر رہا ہے، یہ تبصرہ ہفتہ کو مسقط کے دارالحکومت میں ہونے والے اہم مذاکرات سے پہلے سامنے آیا ہے، ٹرمپ کے دوسری بار وائٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد سے امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں، خاص طور پر فروری میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھیں گے اور سخت طرز عمل اختیار کرکے ایران سے اپنی شرائط پر معاہدہ کرلیں گے، ایران نے واضح جواب دیتے ہوئے امریکہ کی نیک نیتی پر سوال اُٹھاتے ہوئے امریکہ کیساتھ براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد امریکہ نے بلواسطہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی تھی، ساری دنیا کی نظریں عمان مذاکرات پر مرکوز ہیں کیونکہ ایران کے خلاف جنگی مہم کا نتیجہ پوری دنیا کو توانائی کے بحران سے دوچار کرنا ہوگا، یہ طے ہے کہ ایران پر حملہ کیا گیا تو آبنائے ہرمز اور باب المندب سے تیل سمیت کسی قسم کی تجارتی سامان گزر نہیں پائے گا، یہ صورتحال متحرب ملکوں کیلئے ہی نہیں پوری دنیا کیلئے سنگین صورتحال کو جنم دینا کا باعث بنے گی، صدر ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا ہے اگر ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی ایلچی اسٹیو وٹ کوف کے درمیان بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا ایک واضح امکان ہے، انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ اسرائیل ایران کے خلاف کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی میں اہم کردار ادا کرے گا، ایران نے بارہا کہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا ہےتاہم ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک سینئر مشیر علی شمخانی نے حال ہی میں ایک انتباہ جاری کیا ہے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر ایران کو بیرونی خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ ملک سنگین اقدامات کر سکتا ہے، جیسے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی سے معائنہ کاروں کو ہٹانا، جو جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے ذمہ دار ہے۔
ریئر ایڈمرل علی شمخانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں ان ممکنہ اقدامات کا ذکر کیا، جو امریکہ کے غلط فیصلے کے نتیجے میں رونما ہوسکتے ہیں انہوں نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اگر ایران کو خطرہ محسوس ہوا تو وہ افزودہ یورینیم کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے پر غور کر سکتا ہے، اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ایران اپنی سلامتی کو خطرہ محسوس کرتا ہے تو وہ اہم اقدامات کرنے کے لئے تیار ہے جبکہ اس سے قبل ایران کی مجلس شوریٰ کے سابق اسپیکر اور سپریم لیڈر کے مشیر برائے سکیورٹی علی لاریجانی پہلے ہی اس بات کا اشارہ کرچکے ہیں کہ ایران پر بیرونی قوتوں کے حملے کی صورت میں ایران ایٹمی ہتھیار بھی بناسکتا ہے، واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ غلط قدم نہ اٹھائے، انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس قسم کی کارروائی کا خطرہ یقیناً ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے دعووں سے مطابقت نہیں رکھتا اس کے علاوہ ایران سے آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو نکالنا ایران کی طرف سے ایک غلطی اور غلط حساب کتاب ہوگا، بروس نے مزید کہا کہ ابھی یہ ایک میٹنگ ہے جس کا اہتمام کیا گیا ہے، یہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے ایک میٹنگ ہے کہ آیا ایرانی سنجیدہ ہیں یا نہیں، امریکہ نے اس ہفتے ایران کے جوہری پروگرام اور اس کے تیل کے نیٹ ورک کو نشانہ بنانے کے لئے نئی پابندیوں کا بھی اعلان کیا ہے، یمن میں امریکی بمباری کی مہم اور ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان حالیہ ہفتوں میں امریکہ نے بحر ہند کے جزیرے ڈیاگو گارسیا پر ایک امریکی فوجی اڈے پر بھی چھے سے زیادہ بی ٹو بمبار طیارے تعینات کئے ہیں۔
خیال رہے 2015ءمیں ایران نے بڑی طاقتوں کے ساتھ ایک تاریخی جوہری معاہدہ کیا جس نے اسے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی نگرانی میں اس کی جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے بدلے میں بین الاقوامی پابندیوں کو ختم کیا گیا لیکن 2018 میں صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران متفقہ عالمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی اور ایران پر سخت پابندیاں بحال کر دیں، ایک سال بعد ایران نے 2015ء کے ایٹمی معاہدے کے رہنما اُصولوں کے تحت اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانا شروع کردیا اور عالمی ایٹمی ایجنسی کی نگرانیوں کو بتدریج کم کرنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں ایران کا جوہری پروگرام جوہری ہتھیار بنانے کے مرحلے میں داخل ہوگیا فی الحال ایران کا موقف ہے کہ وہ اپنے حریف امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے خلاف ہے لیکن اس نے بالواسطہ بات چیت کا دروازہ کھول دیا ہے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے امید ظاہر کی کہ یہ مذاکرات امن کی طرف لے جائیں گے، روبیو نے ٹرمپ کی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس سے امن قائم ہوگا ہم اس کے بارے میں پر امید ہیں، دنیا کی نظریں عمان میں ہونے والے مزاکرات پر لگی ہوئی ہے جو ایک خطرناک جنگ کو روکنے کیلئے ہفتے کو شروع ہونے جارہے ہیں۔
ہفتہ, اپریل 19, 2025
رجحان ساز
- چین کا بڑا اعلان ٹرمپ کے ٹیرف گیم پر توجہ نہیں دیگا، امریکی صدر ٹرمپ نے ٹیرف کو مذاق بنالیا
- مائنز اینڈ منرلز بل صوبوں کے وسائل پر سنگین حملہ ہے، جسے برداشت نہیں کرسکتے، فضل الرحمٰن
- بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نےدھرنا ڈرامہ ختم کردیا بلوچ رہنما ماہ رنگ بلوچ کی رہا نہ ہوسکیں
- عمان مذاکرات کا مستقبل: ایران امریکہ دونوں ہی غیریقینی کیفیت کا شکار ہیں جنگ کا امکان معدوم
- امریکہ کیساتھ بلواسطہ مذاکرات سے زیادہ پُرامید ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر مایوس،آیت اللہ خامنہ ای
- مشرق وسطیٰ میں امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے صدر ٹرمپ ایران سے ایٹمی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں
- صدر ڈونلڈ ٹرمپ دورہ سعودی عرب کے دوران ایٹمی ٹیکنالوجی متعلق معاہدے پر دستخط کریں گے
- امریکی تجارتی جنگ عقل کی سنگین خلاف ورزی ہے چین کا جوابی اقدام 125 فیصد ٹیرف عائد کردیا