ججز کی طرف سے تحریری فیصلے جاری کرنے میں غیر معمولی تاخیر پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے توجہ مبذول کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو مناسب وقت میں فیصلہ جاری کرنے کا مشورہ دے دیا، جمعرات کو ایک تحریری حکم کے ساتھ اپنے اضافی نوٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ججز کو اپنے کام کی اخلاقیات میں بالاتر ہونا چاہیے اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ سماعت ختم ہونے کے فوراً بعد قانون اور پریکٹس کے مطابق تحریری احکامات جاری کیے جانے چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ کی طرف سے تصنیف کردہ 16 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں سندھ ہائی کورٹ کے جون 2013 کے فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005 کے سیکشن 3 اے کو غیر قانونی قرار دینے کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی وجوہات کی وضاحت کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی سماعت 6 دسمبر 2023 کو ہوئی اور اسی دن جسٹس من اللہ کو فیصلہ لکھنے کے لئے نامزد کیا گیا لیکن انہیں ایسا کرنے میں 223 دن لگے، انہوں نے نوٹ کیا کہ جسٹس من اللہ نے انہیں 18 جولائی کو فیصلہ بھیجا اور اگلے ہی دن انہوں نے اپنا نوٹ لکھا اور اس پر دستخط کر دیئے۔
کوڈ آف سول پروسیجر، 1908 کے آرڈر کے مطابق فیصلے کا تحریری حکم نامہ 30 دن کے اندر لکھا جائے، چیف جسٹس نے نوٹ کیا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے کی ایک بڑی رقم عدالت پر خرچ کی جاتی ہے، اور اس لیے ججز کو مقدمات کا فیصلہ محنت اور تندہی سے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، چیف جسٹس نے عدالت کے ماضی کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر تحریری احکامات جاری کرنے میں کافی تاخیر ہوتی ہے تو ججز سماعت کے دوران کیے گئے دلائل کو یاد نہیں کر پائیں گے۔