ظالمانہ حراست سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی پہلے توشہ خانہ کیس میں حراست اور مقدمے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف سائفر کیسز کی کوئی قانونی حیثیت نہیں جو انہیں سیاسی میدان میں مقابلے سے باز رکھنے کیلئے سیاسی طور پر بنائے گئے، 18 جون کی دستاویز کے مطابق اقوام متحدہ کی باڈی نے 18 سے 27 مارچ 2024ء تک جاری رہنے والے اپنے 99ویں اجلاس میں پی ٹی آئی کے بانی کی نظر بندی پر اپنی رائے کی منظور دی تھی، پی ٹی آئی کے سربراہ کی مختلف عدالتی کارروائیوں میں قانونی تضادات اور بے ضابطگیوں کا ذکر کرتے ہوئے ادارے نے کہا کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے دے رہی ہے کہ عمران خان کو ظالمانہ طور پر نظربند کیا گیا، اس بارے میں کہا گیا کہ پہلے توشہ خانہ کیس میں استغاثہ کی کارروائیاں ان کے دائرہ کار سے باہر ہونے کے ساتھ ساتھ عمران خان اور ان کی پارٹی پر سیاسی جبر کے تناظر میں ورکنگ گروپ نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کو قانونی بنیادوں پر نظر بند نہیں کیا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد انہیں انتخابات لڑنے سے روکنے کے لئے نااہل قرار دینا تھا لہٰذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب مبینہ طور پر سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے کیا گیا۔
رپورٹ میں عمران خان کی پہلے توشہ خانہ کیس میں سنائی گئی سزا کے طریقہ کار اور اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی جانب سے ان کی گرفتاری، ان کی رہائش گاہ میں گھس کر ان پر اور ان کے عملے پر کیے گئے حملے پر تشویش کا اظہار کیا، ورکنگ گروپ نے مزید کہا کہ سائفر کیس میں عمران کے خلاف قانونی بنیادوں پر کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ ایسا نہیں لگتا کہ ان کے اقدامات سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے، دوسرے توشہ خانہ کیس اور عدت کیس میں ان کی سزاؤں کے بارے میں اقوام متحدہ کے گروپ نے نوٹ کیا کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کے خلاف چاروں کیسوں کا فیصلہ ایک ساتھ آیا اور اس کا مقصد انہیں عام انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا تھا، اس میں مزید خلاصہ کیا گیا ہے کہ عمران خان کے الیکشن لڑنے پر پابندی، الیکشن میں ان کی پارٹی کی منصفانہ شرکت کو روکنے اور حکومت کی طرف سے کسی ردعمل کی عدم موجودگی جیسے عوامل کے پیش نظر ورکنگ گروپ اس نتیجے پر پہنچا ہے عمران خان کی گرفتاری، نظر بندی اور پہلے توشہ خانہ کیس اور سائفر کیس میں مقدمہ چلانے کی کوئی قانونی وجہ نہیں تھی اور ایسا لگتا تھا کہ انہیں الیکشن لڑنے سے روکنے کے لیے یہ کیا گیا۔