جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ جب معلوم ہی نہ ہو کہ حکومت کس کی ہے تو لوگوں کو کیا ملے گا، فرنٹ پر کوئی اور لوگ ہیں، ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے، جب کہ ان کے پیچھے کوئی اور لوگ ہوتے ہیں، اس طرح ملک نہیں چلا کرتے، ملک کو سیاستدان چلاتے ہیں، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پشاور میں تاجر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں سے متعلق بات کرتی ہے، ملک کی معیشت بہتر کرنے کے لئے جمیعت آواز اٹھاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ملک انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے، سب کو یکجا کرنا انتہائی ضروری ہے، امن اور بہتر معیشت ہماری ترجیحات ہونی چاہیے، انسان کی جان مال اور عزت و آبرو کا حق قانون سازی کے گرد گھومتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں جب قانون سازی ہوتی ہے تو وہ تین چیزوں کے گرد گھومتی ہے، کسی کی جان، مال اور عزت کا تحفظ کیسے کرنا ہے اور اگر کوئی کسی کے حق کو مارے تو اس کی حق کی تلافی کیسے کی جائے، اسی پر ساری قانون سازی کی جاتی ہے، سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اپنے وطن پر نظر ڈال دیجئے، کیا یہاں امن ہے، یہاں بہتر معیشت ہے، کیا جس کے لئے ملک بنا اس پر ہم کھڑے ہیں، جو رب سے بغاوت کرتا ہے اسے اللہ بھوک اور بدن کی سزا دیتا ہے، آج ملک میں کیا ہورہا ہے خود دیکھ لیں۔
فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا اور خطے میں اگر کوئی ملک معاشی لحاظ سے ڈوب رہا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے، یہ ہمارے نظام میں خامی ہے، ہماری پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کے نام پر لوگ ضرور بیٹھے ہوئے ہیں لیکن وہ عوام کے حقیقی نمائندے نہیں بلکہ جعلی نمائندے ہیں، اور جس پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہوں گے وہ عوام کے مسائل کبھی حل نہیں کرسکتی، ان کا کہنا تھا کہ میں نے پارلیمنٹ میں بھی ٹیکس کی بات کی تھی کہ یہ تو ہمیں ورثے میں ملا ہے، کیا پاکستان میں 77 سالوں میں ہمارے طور طریقے بدلے ہیں، ٹیکس پر ٹیکس لگ رہے ہیں ہم کیوں ادا کریں، لوگوں کو پتہ ہے کہ ہمارا ٹیکس باہر قرضوں کی ادائیگی میں جائے گا، یہ آئی ایم ایف کے پاس جائے گا ہماری فلاح وبہبود پر خرچ نہیں ہوگا، پہلے قوم کو اعتماد تو دلائیں، فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب حکومت ہی معلوم نہ ہو کہ کس کی ہے تو لوگوں کو کیا ملے گا، فرنٹ پر کوئی اور ہے اور ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے، اور ان کا ڈور پیچھے کسی اور کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ صرف گالیوں کے لیے رہ جاتے ہیں، یہ نظام ہی غلط ہے، ملک کی معیشت زمین بوس ہوچکی ہے، اور یہ میاں صاحب کو بتایا تھا، معیشت اس قدر گرچکی ہے کہ اس کو دوبارہ اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی، لیکن میاں صاحب نے کہا کہ میں نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے، لیکن اب چیلنج کا یہ حال ہے۔