پاکستان کے وزیر دفاع و مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے پاکستانی فوج کے سیاسی فیصلوں سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے بدلے ہمیں پنجاب اور وفاقی حکومت دینے کی آفر کی تھی، خواجہ آصف نے ایک سوال پر کہا کہ میں تو آج بھی کہتا ہوں کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو پارلیمنٹ میں بلایا جائے، جنرل باجوہ نے تو مدت ملازمت میں توسیع کے بدلے ہمیں پنجاب اور وفاقی حکومت دینے کی آفر کی تھی، آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت دہشت گردی کی لہر چل رہی ہے، پاکستان میں دہشت گردی کے پنپنے میں وہ قوتیں شامل ہیں جو ملک کی معیشت خراب کرنے میں شامل تھیں، آپریشن پر تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور کیے جائیں گے اور انہیں آپریشن عزم استحکام پر اعتماد میں لیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ بظاہر پاکستانی طالبان کے خلاف کیا جانے والا فوجی آپریشن عزم استحکامِ پاکستان پر پارلیمنٹ اور کابینہ میں بات ہوگی، یہ آپریشن خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوگا۔
خواجہ آصف نے ایک سوال پر کہا کہ افغانستان سے ہمیں کوئی سپورٹ نہیں مل رہی ہے لیکن ایران سے سپورٹ ہے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن، علی امین گنڈاپور اور ایمل ولی سے آپریشن عزم استحکام پر بات کریں گے جبکہ ہر اس تنظیم کے خلاف آپریشن ہوگا جو دہشت گردی میں ملوث ہوگی اور اس کے خلاف واضح ثبوت ہوں گے، واضح رہے جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمٰن نے خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے عزم استحکام فوجی آپریشن کو عدم استحکام قرار دیا ہے، پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس فوجی آپریشن کی شدید مخالفت کی ہے، دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی آپریشن کے نتیجے میں قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے اور بے گناہ عوام کی زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔