غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے اور حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی کوششوں کےضمن ایک اسرائیلی وفد قاہرہ میں ہے، دوسری طرف اسرائیلی وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے اس معاہدے کو امریکی انتخابات تک ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اسرائیلی چینل 13 کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ حماس کے ساتھ اب معاہدہ طے کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ پر طمانچہ اور جو بائیڈن کی فتح ہوگی، جمعرات 18 جولائی کو بین گویر نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا اور اس موقعے پر کہا کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو قیدیوں کی واپسی کے لئے کسی بھی معاہدے میں ہتھیار نہیں ڈالنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ غزہ پر مزید فوجی دباؤ ڈالا جانا چاہیے اور اسے ایندھن کی سپلائی ہمیشہ کے لئے روک دی جانی چاہیے، مصری حکام نے بتایا کہ اسرائیلی وفد قاہرہ پہنچا ہے تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں، انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی ثالث اسرائیل اور حماس کو مرحلہ وار ایک معاہدے تک پہنچنے کی طرف کے جانا چاہتے ہیں جس سے لڑائی بند ہو جائے اور غزہ سے تقریباً 120 قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
ہفتے کے آخر میں دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت اس وقت تناؤ کا شکار ہو گئی تھی جب اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ اس نے حماس کے فوجی کمانڈر محمد الضیف کو ایک بڑے حملے میں نشانہ بنایا ہے تاہم حماس کے مطابق الضیف اس حملے کے وقت وہاں موجود نہیں تھے، دریں اثناء اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا نے بدھ کے روز کہا کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا حماس کے ساتھ مذاکرات کے دوران نئے نکات پر اصرار غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے گا، اسرائیلی اخبار یدیعوت احرونوت کے مطابق انہوں نے انکشاف کیا کہ موجودہ تنازعہ نیتن یاہو کے غزہ کے باشندوں کی پٹی کے جنوب سے شمال کی طرف نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے طریقہ کار پر اصرار کی وجہ سے ہے، رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ثالث دو نکات کے حوالے سے اسرائیل کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ پہلا حماس کے ارکان کی شمالی غزہ کی پٹی میں واپسی، اور دوسرا فلاڈیلفیا کے محور سے اسرائیلی فوج کے انخلاء اور سرحد پر رفح کراسنگ پراسرائیل کی موجودگی کے نکتے پر جواب کا انتظار ہے۔