تحریر: محمد رضا سید
اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموترچ نے جمعرات کو زومیت انسٹٹیوٹ اور مکور ریشون اخبار کی جانب سے منعقد کروائی گئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی عرب سے سفارتی تعلقات استوار کرنے پر اس وقت ہی رضامند ہوں گے جب ان کے مطالبات میں فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں ہوگا، اپنی گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب ہمیں کہتا ہے کہ تعلقات اس وقت ہی استوار ہوں گے جب فلسطین ایک ریاست بنے گی تو ہم ایسا نہیں چاہتے، سعودی عرب کے لوگ پھر صحرا میں اونٹوں کی سواری ہی کریں، اس طنزیہ محاورے نے مشرق وسطیٰ کی سیاست بھونچال پیدا کردی، سعودی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سعود بن سلمان الدوسری نے اسرائیلی وزیرِ خزانہ کے بیان کو بچکانہ قرار دیا ہے، اُنھوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ سموتریچ کے بچکانہ بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، مشرق وسطیٰ اور اسرائیلی سول سوسائٹی کی جانب سے شدید تنقید کے بعد بیزلیل سموترچ نے سعودی عرب کے حوالے سے طنزیہ محاورے کے استعمال پر معذرت کرلی ہے، ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ سعودی عرب ہمیں نقصان نہیں پہنچائے گا اور ہمارے ورثے، روایات، یہودیہ اور سامرہ پر یہودی لوگوں کے تاریخی حقوق کو مسترد نہیں کرے گا، واضح رہے کہ غاصب ریاست کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی اتحادی جماعتوں نے گزشتہ ماہ مغربی طاقتوں کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کئے جانے کے جواب میں فلسطین کے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے عمل کو آگے بڑھانے کا مطالبہ کیا اور ستمبر کے اوائل میں سموٹریچ نے عوامی طور پر مغربی کنارے کے 82 فیصد حصے کے ضم کرنے کا مطالبہ کردیا حالانکہ علاقائی ممالک نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا ایسا کوئی قدم مشرق وسطیٰ میں بھونچال پیدا کردے گا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی فلسطین کے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی مخالفت کی ہے، انہوں نے گزشتہ ماہ بیان دیا کہ وہ اسرائیل کو فلسطین کے مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جس پر ردعمل دیتے ہوئے نیتن یاہو کے اتحادیوں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم واشنگٹن کی باتوں کو نظرانداز کریں۔
امریکی صدر نے روان سال نومبر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کررکھا ہے تاکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے ابراہیمی معاہدے پر بات چیت کی جا سکے، اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ کی جانب سے سعودی عرب کے شہریوں کی سنگین توہین ٹرمپ انتظامیہ کے اس عزم کو مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے، ریاض کا طویل عرصے سے اصرار ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک معمول پر نہیں لائے گا جب تک فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں آجاتا ہے، ریاض کی اس شرط کو سموٹریچ اور نتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت کے اتحادیوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے، سعودی عرب کی حکومت نے غاصب اسرائیلی ریاست کی جانب سے عرب علاقوں میں تمام یہودی آبادکاریوں اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے، سعودی وزارت خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا سعودی مملکت فلسطینی عوام کیلئے اپنی آزاد ریاست کے قیام کے تاریخی اور بنیادی حق کی حمایت کا اعادہ کرتی ہے اور 1967 کی سرحدوں کیساتھ مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتی ہے، سموٹریچ کے بیان کو اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یائر لاپڈ کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لایڈ نے اپنے عربی زبان کے ٹویٹ میں کہا ہمارے عرب دوستوں کیلئے یہ کافی ہوگا کہ سموٹریچ اسرائیلی ریاست کی نمائندگی نہیں کرتا۔
اس سے قبل اسرائیلی پارلیمنٹ(کینسٹ) نے منگل کے روز مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے عمل کا آغاز کردیا اور چند بلز کو منظوری دی ہے جن کا تعلق مغربی کنارے کے اسرائیل میں ضم کرنے کے عمل سے ہے، جس میں خاص طور پر معالیہ ادومیم نامی یہودی بستی شامل ہے جس کو اسرائیلی قانون کے تحت ضم کرنے کی حکومتی تجاویز کو تائید مل گئی ہے، معالیہ ادومیم مشرقی بیت المقدس کے قریب مغربی کنارے میں ایک بڑی یہودی بستی ہے، جسکی بین الاقوامی قانون کے تحت جائز حیثیت بھی نہیں ہے جس کو اسرائیل اپنی ریاست کا حصہ بنانا چاہتا ہے جبکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق خاص طور پر چوتھا جنیوا کنونشن کسی قابض حکومت کو اپنے شہریوں کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اسی بنیاد پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، اور عالمی عدالتِ انصاف مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری اور ممکنہ الحاق کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، اسرائیلی پارلیمنٹ میں ووٹنگ پریلیمنیٹری (ابتدائی) مرحلے کی تھی، بل کی حتمی منظوری میں ابھی بہت سی کارروائیاں باقی ہیں اور فوراً ضم کا مطلب یہ نہیں کہ ضم اِس وقت نافذ العمل ہوگیا ہے، اس ووٹنگ پر امریکی نائب صدر جے ونس نے اسے سیاسی شو قرار دیا اور کہا کہ اس کا عملی مطلب محدود ہے اور امریکہ ضم کو منظور نہیں کرے گا، اسرائیلی پارلیمان کے اس فیصلے کو خود اسرائیل کی سول سوسائٹی نے بھی ناجائز اقدام قرار دیا ہے اِن کے مطابق یہ اقدام دراصل حکومت کے اندر موجود سخت دائیں بازو کے دباؤ کا نتیجہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے
بزویل سموتریچ اور اٹمار بن گِویر نے مغربی کنارے کے 80 فیصد حصّے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے بل کو آگے بڑھایا جبکہ غاصب ریاست کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی جماعت لیکود نے باضابطہ طور پر اس مسودے کی حمایت نہیں کی، لیکود اراکین کی ایک تعداد غیر حاضر رہی اور زیادہ تر غیر جانبدار رہے جبکہ چند اراکین نے حکومت کی پالیسی کے برخلاف ووٹ دیا، ریلیجس صیہونی پارٹی کے رہنما اور وزیر خزانہ سموٹریچ کہا کہ یہ وقت ہے کہ اسرائیل حقیقت کو تسلیم کرے اور یہودی سرزمین پر اپنی حاکمیت نافذ کرے حالانکہ امریکہ، یورپی یونین، اور عرب ممالک نے اس منصوبے کو امن کے خاتمے کے مترادف قرار دیا ہے، اردن اور سعودی عرب نے واضح کیا ہے کہ اس اقدام سے علاقائی معاہدے اور اسرائیل اور عربوں کی دوستی کا عمل خطرے میں پڑ جائے گا، دنیا کے مختلف ملکوں میں شدت پسند عناصر اپنی اپنی ریاستوں کیلئے خطرہ بنتے جارہے ہیں، بزویل سموتریچ اور اٹمار بن گِویر جیسے افراد اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ ہیں جو پہلے ہی سوالیہ نشان ہے۔
ہفتہ, اکتوبر 25, 2025
رجحان ساز
- سعودی شہریوں کی توہین پر اسرائیلی وزیرخارجہ نے معذرت کرلی مگر بات بہت آگے بڑھ چکی ہے !
- بلوچستان: ضلع دُکی میں پوست کی کاشت کرنے پر 75 زمینداروں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل
- دہشت گردی کو بیرونی ایجنڈا قرار دینے سے مسئلہ برقرار رہتا ہے، پیشہ ورانہ پولیس کی ضرورت ہے
- ہینلے اینڈ پارٹنرز کا گلوبل انڈیکس میں پاکستان عالمی سرمایہ کاری کیلئے رسکی ملکوں میں شامل کردیا گیا !
- پاکستان میں رواں سال ابتک سائبر کرائم 35 فیصد اضافہ ہوا، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی بنیادی وجہ ہے
- بلوچستان میں بدامنی ضلع نوشکی میں مسلح علیحدگی پسندوں کی دہشت گردی 2 پولیس اہلکار جاں بحق
- شہباز شریف نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی عمران خان سے ملاقات کیلئے انتظامات کرنیکی ہدایت !
- پاکستان میں انٹرنیٹ سروس متاثر وفاقی حکومت نے ایک بار پھر سمندر میں کیبل خرابی سے جوڑ دیا

