تحریر: محمد رضا سید
امریکی سیاستدانوں نے غزہ میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جس انداز سے سفاک اور بے رحم قاتل کااستقبال کیا اُس نے انسانیت کو شرمسار تو کیا لیکن امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے اکثر ارکان نے اپنی ذاتی اقدار اور انسانی شرافت کی پیدائشی صفت کو اپنے پاؤں تلے روندھ ڈالا ہے ، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کا اصل مقصد ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے قومی کنونشنوں کے درمیان وقفے کے دوران توجہ حاصل کرنا تھا اور اس کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات استوار کرنا تھا، جن سے نیتن یاہو جمعہ کو ملاقات کررہے ہیں، ٹرمپ امریکہ کے وہی صدر ہیں جنھوں نے اپنے پہلے دور حکومت میں نیتن یاہو کومزیدیہودی بسیتاں تعمیر کرنے کیلئے سبز جھنڈی دکھائی تھی اور ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو یکطرفہ منسوخ کرنے کے حکم نامے پر دستخط کرکے تل ابیب کو نہال کردیا تھا، ٹرمپ نے اپنے اوپر قاتلانہ حملے کے بعد کہا ہے کہ اسرائیلی افواج کو اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ کام ختم کرئے، ٹرمپ غزہ اور یوکرین سے امریکہ کو باہر نکالنا چاہتے میں امریکی رائے عامہ کا سفاک قاتل کیلئے برتاؤ سیاستدانوں سے مختلف ہے، عوام منافقانہ مسکراہٹوں کیساتھ اس کے استقبال کیلئے تیار نہیں ہیں، جسکا اظہار ہم سوشل میڈیا پر دیکھ سکتے ہیں جہاں نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کو امریکی عوام شدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ، امریکی انتظامیہ اور کانگریس ارکان سے اسرائیل کو فوجی امداد بند کرنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین نے بدھ کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دورہ کے خلاف مظاہروں اہتمام کیا، واشنگٹن کے یونین اسٹیشن کے باہر فلسطینی پرچم لہرائے اور اسرائیلی پرچم نذر آتش کئے، کیپیٹل ہل کے قریب پہنچ جانے والے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئےپولیس نےمرچوں کا اسپرے کیا تاکہ جب نیتن یاہو کانگریس سے خطاب کیلئے کیپیٹل ہل پہنچیں تو مظاہرین اُن سے دور رہیں، فلسطین کے حامی گروپوں اور یونیورسٹی کے طلباء امریکی انتظامیہ کے جبر کے باوجود کئی مہینوں سے حماس کے زیر انتظام غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے امریکی کانگریس سے خطاب میں غزہ کی جنگ کے حوالے سے اسرائیل کی موجودہ صورتحال کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اسرائیل اس جنگ میں اپنے مقاصد کے حصول تک پیچھے نہیں ہٹے گا، اسرائیل کے اس موقف سے یہ بات تو صفاف ہے کہ تل ابیب جنگ بندی کیلئے مخلص نہیں ہے اسی لئے وہ عارضی جنگ بندی کے بدلے یہودی قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے،اسرائیلی وزیراعظم نے ایران، روس، اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی شراکت داری کو اسرائیل کی سلامتی، امن، اور خوشحالی کیلئے خطرہ قرار دیا اور امریکی کانگریس سے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کی اپیل کی نیتن یاہو کی تقریر واشنگٹن میں تنازعہ کا باعث بھی بنی کچھ ڈیموکریٹس نے ان کے خطاب کا بائیکاٹ کیا جبکہ کچھ نے اسرائیل کی حکمت عملی پر تنقید کی، امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی نیتن یاہو کی جنگی حکمت عملی اور غزہ میں انسانی امداد کے حوالے سے ان کے اقدامات پر نکتہ چینی کی ہے، کانگریس سے اپنے خطاب کیلئے نیتن یاہو نے ایک مکار لومڑی کی طرح بھی چالیں چلی ،امریکی قانون سازوں کواسرائیل کیلئے روک ٹوک کے بغیر اسلحہ کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے غزہ کو اپنے عرب اتحادیوں کیساتھ ملکر تعمیر نو کاایک مبہم منصوبہ بھی پیش کیا، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی کانگریس سے خطاب میں حماس کے خلاف صیہونیوں کی جنگ کا بھرپور دفاع کیا اور غزہ میں اسرائیلی فوج کے شرمناک کردار کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں امریکی مظاہرین کا مذاق بھی اڑایا۔
نیتن یاہو نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس یہودی ریاست کے خلاف احتجاج کرنے والوں کیلئے ایک پیغام ہے، یاہو نے انتہائی ڈھٹائی کیساتھ کہا کہ جب تہران کے حکمران ہم جنس پرستوں کو کرینوں سے لٹکاتے ہیں تو اُس وقت انسانیت کا دم بھرنے والے کیوں آواز نہیں اُٹھاتے، اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی تہران تعریف اور فنڈنگ کر تا ہے، اس لئے اسرائیل کے خلاف یہ لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، غاصب اسرائیلی وزیراعظم جس وقت یہ مضحکہ خیز جملوں کو ادا کررہے تھے اُس وقت کچھ امریکی قانون ساز زیر لب مسکرائے یعنی نوبت یہاں تک آگئی امریکیوں کو ایران سے مالی مدد لینا پڑ رہی ہے وہ بھی لاکھوں لوگوں کو اور اُن لوگوں کو بھی جو یونیورسٹی کے طلبعلم ہیں جو امریکہ کا مستقبل ہیں تاہم مظاہرین ایسے الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے مظاہرے غزہ میں انسانی بحران کا ردعمل ہیں جہاں تقریباً 2.3 ملین آبادی بے گھر ہو چکی ہے، چالیس ہزار انسان مارے جاچکے ہیں، فضائی بمباری نے غزہ میں اس قدر بارود پھیلا یا کہ زمین تو بنجر ہوئی ساتھ ہی زینون کی کاشت کرنے والوں کی معیشت کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی، کیپیٹل ہل کے قریب احتجاجی مقام پر بنائے گئےاسٹیج پر ایک بینر ایسا بھی آوزاں تھا جس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو مطلوب جنگی مجرم قرار دیتے ہوئے اسے گرفتار کرنے کا مطالبہ درج تھا حالانکہ نیتن یاہو ہزاروں بچوں اور حاملہ عورتوں کو بلا امتیاز فضائی بمباری میں قتل کرنے کے باوجود اپنےجنگی جرائم کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
نیتن یاہو نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ فوجی امداد کو تیز کریں کیونکہ اسرائیلی فوجی اور عوام امریکی تہذیب و سیاست کو بچانے کی جنگ فرنٹ لائن پر لڑرہے ہیں، اس نے مزید کہا کہ صیہونی فوج حماس کے خلاف نہیں ایران کے خلاف جنگ لڑرہی ہے، جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی قانون سازوں کے سامنے کھڑے ہوکر بہت سے جھوٹ بولے مگر وہ ایک سچ بھی بول گئے کہ وہ امریکی تہذیب وسیاست کی جنگ فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں اُنھوں نے تسلیم کرلیا اسرائیل امریکہ کا ہی بچہ جمورا ہے، جس نے یہودیوں کا مصنوعی خوف کےبُت کو تراش کر بیت المقدس میں نصب کیا کیونکہ اُس وقت امریکی تہذیب اور اُسکے عالمی کردار کیلئے تیل کی ضرورت تھی جسے ڈالر سے جوڑ کر امریکہ نے اپنا عالمی کردار حاصل کیا لیکن عالمی بساط پر موجود مہروں کے خوف نے اسرائیل کو عربوں سینے پر سوار کرادیا لیکن اب اُسے سیال سونے کی ضرورت نہیں ہے لہذا اسرائیل واشنگٹن کیلئے بوجھ نبتاجارہا ہے، اسرائیل کی چند سال زندہ رکھنے کیلئے امریکہ نے عرب حکمرانوں کو اسکا دوست بنادیا، واشنگٹن اپنے ٹیکس دہندگان کے پیسے کے تحفظ کرنا اچھی طرح جانتا ہے، اسرائیلی وزیراعظم تقریر، جس کا درجنوں ڈیموکریٹک قانون سازوں نے بائیکاٹ کیا تھا، صدر جو بائیڈن کی طرف سے پیش کی گئی جنگ بندی کی تجویز کا کوئی براہ راست حوالہ نہیں دیا لیکن اپنے ماضی کے اصرار پر قائم رہے کہ حماس کے تباہ ہونے تک جنگ ختم نہیں ہوگی ، نیتن یاہو اپنے دورہ امریکہ کے دوران ہر سطح پر ایران پر امریکی حملے سے گریز کی پالیسی پر نوحہ خوانی کرتے نظر آرہے ہیں ، اسرائیلی وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ اُن کی 1948ء میں بنائی گئی ریاست کی سلامتی کو ایران سے ہی حقیقی خطرہ لاحق ہے۔