تحریر: محمد رضا سید
شام کے صدر بشار الاسد نے دارالحکومت دمشق چھوڑ دیا اور نامعلوم مقام کی طرف روآنہ ہوگئے، اس طرح صدر بشار لاسد کو قتل کرانے کی اسرائیلی سازش ناکام ہوچکی ہے برطانیہ میں امریکی اور برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی حمایت سے قائم کی گئی سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اطلاع دی ہے کہ دمشق کے ہوائی اڈے سے نکلنے والا ایک نجی طیارہ ممکنہ طور پر صدر بشار الاسد کو لے کر روآنہ ہوگیا ہے، جس کے بعد سرکاری فوجی بیرکوں میں چلے گئے ہیں، متحدہ عرب امارات کے میڈیا نے بھی سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے خبر نشر کی تھی کہ شام کے صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں، حزب اللہ کے سکیورٹی میڈیا نے بھی تصدیق کردی ہے مسلح باغی دارالحکومت میں داخل ہوچکے ہیں، شام کی مسلح اپوزیشن اتوار کی صبح حمص صوبے پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئی، وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے شامی عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کے لئے آمادگی کا اظہار کردیا ہے، شامی میڈیا کے مطابق حیات تحریر الشام کے عسکریت پسند دمشق کے ہوائی اڈے سمیت سرکاری تنصیبات میں داخل ہو گئے، جس کے بعد تمام پروازیں معطل کردی گئیں ہیں، مسلح افراد نے ہوائی اڈے کو ملازمین سے خالی کرالیا ہے، جنگجو شامی دارالحکومت کے وسط میں واقع ٹی وی اور ریڈیو کی عمارت میں بھی داخل ہو گئے، آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں عسکریت پسندوں کو دمشق کے میزہ ایئر بیس پر دکھایا گیا ہے، فوٹیج میں عسکریت پسندوں کو سیڈنایا جیل میں قید جرائم پیشہ افراد کو رہا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، دمشق میں داخل ہونے کے بعد وزیراعظم الجلالی نے کہا کہ وہ اقتدار حوالے کرنے کے کسی بھی عمل کے لئے تیار ہیں، الجلالی نے کہا کہ شام ایک عام ملک ہو سکتا ہے جو اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرے لیکن یہ مسئلہ شامی عوام کی طرف سے منتخب کردہ کسی بھی قیادت پر منحصر ہے۔
شام کے وزیر اعظم نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر نشر کی گئی ایک تقریر میں کہا کہ دمشق مسلح قیادت کے ساتھ تعاون کرنے اور مذاکرات کیلئے تیار ہے، اطلاعات کے مطابق صدر بشار الاسد نے دمشق سے روآنہ ہونے سے قبل تمام صدارتی اختیارت وزیراعظم محمد غازی الجلالی کے سپرد کردیئے ہیں جو باغیوں سے سمجھوتہ کرنے کا بھی اختیار رکھتے ہیں، دوسری طرف غاصب اسرائیلی حکومت نے اتوار کو بتایا کہ وہ دمشق میں شام کے غیر سرکاری مسلح افراد کے داخلے اور سرکاری عمارتوں پر قبضے کے بعد غیریقینی صورتحال کے دوران اُس نے جاتح اسرائیلی فوج کو شام کے ساتھ گولان پہاڑیوں کے درمیان بفرزون میں داخل کردیا ہے، فوج نے ایکس پر کہا کہ مسلح جنگجوؤں کے بفرزون میں داخل ہونے کے خدشات کے پیش نظر فوجیوں کو اسرائیلی دفاع کیلئے ضروری کئی پوائنٹس پر بھیجا گیا ہے، المیادین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقامی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی ٹینکوں کو قنیطرہ کے قریب بفر زون میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور علاقے میں گولہ باری کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں، اسرائیلی فوج نے مزید کہا کہ اسرائیل شام میں رونما ہونے والے واقعات کی حمایت کرتا ہے لیکن جب تک ضروری ہوگا اسرائیلی فوج بفر زون میں رہے گی، دمشق پر مسلح گروہوں کے کنٹرول کیلئے کابل فارمولا اپنایا گیا ہے جہاں صدر اشرف غنی کو محفوظ راستہ دیکر طالبان کابل میں داخل ہوگئے تھے لیکن شام میں صدر بشار الاسد کا معاملہ مختلف ہے، اشرف غنی کی افغانستان میں جڑیں نہیں تھیں انہیں امریکہ نے منصب اقتدار پر بیٹھایا تھا، صدر بشار الاسد کی شام میں جڑیں ہیں وہ شام کی 25 فیصد آبادی کے متفقہ لیڈر ہیں، شام کی سیاست میں اُن کے رول کا فیصلہ ہونا باقی ہے اور شام میں امن کیلئے ضروری ہوگا کہ ترکیہ بشار الاسد سے اختلافات کے باوجو اِن کی حیثیت کو نظر انداز کرتا ہے تو شام میں سیاسی استحکام لانے کی ترکیہ، روس اور ایران کی کوششیں اکارت چلی جائیں گی۔
شام کے وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے کہا کہ وہ شامی عوام کی طرف سے منتخب کی جانے والی کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں اور اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اتوار کے روز علی الصبح اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع کرنے کے لئے تیار ہیں، شام کے دارالحکومت دمشق میں عسکریت پسندوں کے داخل ہونے اور صدر بشار الاسد کی جانب سے قبل از وقت دارالحکومت سے کسی نامعلوم مقام پر جانے کی اطلاعات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے، واضح رہے کہ ہفتہ کو دیر گئے شامی عرب فوج حمص شہر سے پیچھے ہٹ گئی، جہاں عسکریت پسندوں نے مغربی شام کے شہر اور دیگر قصبوں پر قبضہ کر لیا، شام کی سرکاری فوج کے دستوں کے انخلا اور شام کے زیادہ تر قصبوں پر مسلح گروہ کے قبضے سے پہلے اور اس کے دوران کوئی جھڑپیں ریکارڈ نہیں کی گئیں، خبر رساں ادارے روئٹرز نے شام کے دو اعلیٰ فوجی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ الاسد دمشق سے نامعلوم مقامات کی طرف روانہ ہو گئے بعد میں اطلاع دی گئی کہ عسکریت پسند شہر میں داخل ہو گئے ہیں، دریں اثناء الجلالی نے کہا کہ وہ شامی عوام کی طرف سے منتخب کی جانے والی کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تو تیار ہیں مگر وہ اس وقت تک وزیراعظم ہاؤس اور آفس نہیں چھوڑیں گے اور اپنے فرائض منصبی ادا کرتے رہیں گے جب تک کہ اقتدار کی پرامن منتقلی نہیں ہو جاتی اور یہ کہ وہ شامی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دیتے، انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور مسلح گروہوں پر زور دیا کہ وہ ملک کے مفاد میں عقلی فیصلے کریں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپوزیشن کے اراکین سمیت ہر ایک کیلئے تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، دمشق سے موصولہ رپورٹس کے مطابق شام کی سرکاری فوج ابھی تک مسلح ہے اور وزیراعظم کے حکم پر بیرکوں تک محدود ہوچکی ہے جبکہ ایران، روس اور حزب اللہ کے عسکری مقامات اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم کے خلاف حیات التحریر الشام کی جانب سے کسی بھی طرح کی کارروائی سے گریز کیا گیا محسوس یہ ہورہا ہے کہ ایچ ٹی ایس دمشق پہنچنے کے بعد بات چیت کا عمل شروع کرئے گی، اس سے قبل قطر میں ایران، ترکی اور روس کے وزیر خارجہ کے طویل مذاکرات ہوئے ہیں اور جس کے نتیجے میں صدر بشار الاسد کو بیرون ملک جانے کیلئے محفوظ راستہ دیا گیا کیونکہ ایچ ٹی ایس کےمربی ترکیہ نےاس بات کی ضمانت لی ہے کہ حیات التحریر الشام قتل عام اور بدلہ لینے کے بجائے سیاسی عمل کا حصّہ بننے گی تاہم اس وقت یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ صدر بشار الاسد جو اپنے آئینی اختیارات وزیراعظم جلالی کے سپرد کرچکے ہیں شام کی سیاست میں کتنے متعلق رہتے ہیں۔