تحریر : محمد رضا سید
بدھ 3 جولائی کو ترکمانستان سے عراق تک گیس پائپ لائن بچھانے کے معاہدے پر ایران اور ترکمانستان نے دستخط کئے ہیں ،جس کے تحت سالانہ 10 بلین کیوبک میٹر ترکمانی گیس ایران کے راستے عراق کو سپلائی کی جاسکے گی تاکہ عراق اپنی بجلی کی پیداواری صلاحتیوں کو بڑھا سکے، تزویراتی اہمیت کا حامل معاہدےسے تینوں ممالک کو فائدہ تو پہنچے گا مگر اس معاہدہ سے ترکمانستان کو مشرق اور جنوب کی جانب اپنی گیس کیلئے برآمدی تنوع حاصل ہوسکے گا، اس موقع پر جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ترکمانستان اور ایران گیس کی صنعت میں برسوں سے باہمی سود مند شراکت داری پر مبنی تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں، اس سے قبل ترکمانی گیس بذریعہ ایران 2023 ء میں آذربائیجان تک بذریعہ ایران پہنچائی جا چکی ہے، ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی کمپنیاں ترکمانستان کی گیس کی ترسیل کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے ایران تک 125 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائیں گی، ترکمانستان کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اشک آباد ایران کی جغرافیائی لوکیشن کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی گیس کی برآمدات سالانہ 40 بلین کیوبک میٹر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے، ترکمانستان میں گیس سپلائی کو بڑھانے اور اسے برآمد کرنے کے مقصد سے تین کمپریسر اسٹیشنوں کی تعمیر کا کام پہلے ہی ایرانی کمپنیاں انجام دے رہی ہیں۔
ترکمانستان اپنی قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کی برآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اور چین ترکمانی گیس کا سب سے بڑا صارف ہے جبکہ اشک آباد گیس برآمد کرنے کیلئے نئی منڈیوں میں تنوع لانے کے لئے افغانستان، پاکستان اور بھارت کو گیس فراہم کرنے کے لئے پائپ لائن منصوبے کو بھی جلد از جلد مکمل کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے مگر یہ منصوبہ بھی عالمی سیاست کے نظر ہوکرتعطل کا شکار ہے تاہم ترکمانستان کی وزرات خارجہ نے بتایا ہے کہ وہ گیس پائپ لائن افغانستان تک بچھانے کے منصوبے کیلئے افغان طالبان سے بات چیت کررہا ہے، امریکہ نے ترکمانستان سے پاکستان تک پائپ لائن منصوبے کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا متبادل قرار دیا تھا مگر افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے کے بعد اس منصوبے میں رکاوٹیں پڑنے لگیں جبکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی مسلسل کشیدگی نے اس منصوبے کے سرمایہ کاروں کی دلچسپی کم کردی ہے۔
پاکستان میں گیس سے کم لاگت بجلی پیدا کی جاسکتی ہے کو ملکی برآمدی صلاحتوں کو بڑھانے کیساتھ ساتھ عالمی مسابقتی میدان میں ہندوستان اور بنگلہ دیش سے مقابلہ کرسکتی ہے، پاکستان میں کپڑا بنانے کی صنعت عمران خان حکومت گرانے کے بعد سے مسلسل زوال پذیر ہے، اس صنعت سے وابستہ سرمایہ کاری بنگلہ دیش اور ہندوستان کیطرف اپنی توجہ کو مبذول کررہے ہیں اور بڑے پیمانے پر سرمایہ منتقل کیاجا رہا ہے مگر پاکستان پر مسلط اشرافیہ سول اور فوجی بیوروکریسی کی اس جانب توجہ ہی نہیں ہے، پاکستان کے عوام پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی مشترکہ حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور ٹیکسز کی بھرمار کا عذاب بھگت رہے ہیں ، جس نے عوام سے جینے کا حق محددو کردیا ہے اور ایک سروے کے مطابق پاکستان کے نوجوانوں کی 94 فیصد تعداد ترک وطن پر آمادہ ہے، یہ صورتحال عالمی سطح پر بحران پیدا کرسکتی ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پڑوسی ملکوں کو ابھی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی مختلف حکومتوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبےکے حوالے سے خوشنما بیانات جاری کرتی رہتی ہیں اوراس منصوبے کو مکمل کرنے کے فیصلوں کا بھی اعلان کیا جاتا رہا ہےمگر اقدامات کا وقت آتا ہے تو پاکستان کی مقتدرہ واشنگٹن کی طرف دیکھنا شروع کردیتی ہے، پاکستان کی سیاسی قیادت، فوجی اور سول بیوکریسی امریکہ سے خوفزدہ ہے کیونکہ انہیں یورپ اور امریکہ میں موجود جائز اور ناجائز اثاثوں کے منجمد ہونے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ،امریکی حکام اس دکھتی رگ سے واقف ہی نہیں بلکہ حسب ضرورت دباتے بھی رہتے ہیں ، پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے ایم او یو پر دستخط 1996ء میں صدر فاروق احمد خان لغاری نے کئے تھے اور یہ منصوبہ ابتک مکمل نہ ہوسکا حالانکہ ایران نے گیس پائپ لائن پاکستانی سرحد تک پہنچا دی ہے، ایران کیساتھ رسمی تجارت میں حائل رکاوٹ اسمگلنگ لابی بھی ہے ، اس لابی میں بلوچستان کے بااثر شخصیات اور فوجی اور سول بیوروکریسی ملک بھر میں موجود کسٹم حکام شامل ہے، ایران سے روزآنہ کی بنیاد پر کروڑوں ڈالر کی اسمگلنگ ہورہی ہے، کسٹم ٹیرف، ڈیوٹیاں اور سیلز ٹیکس زیادہ رکھا گیا ہے تاکہ اسمگلنگ کے ذریعے کمانے کا دھندہ جاری رہے۔
ایران کی جغرافیائی لوکیشن سے پڑوسی ممالک اور مشرقی یورپ بھر پور فائدہ اُٹھا رہا ہے، چین نے بھی ایران اور افغانستان کے ذریعے شاہراہ ریشم کا منصوبہ مکمل کرنے کی ٹھان لی ہے، جس سے پاکستان کا کردار محدود ہوگیا ہے جبکہ افغانستان چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے میں اہمیت اختیار کررہا ہے، پاکستانی مقتدرہ کو کیوں یہ حقیقتیں سمجھ نہیں آرہی ہیں ، چین ، روس اور ایران طویل المدتی منصوبہ بندی کے ذریعے ایشاء اور مشرقی یورپ میں امریکہ کی جگہ حاصل لے رہے ہیں ، روزآنہ کی بنیاد پر اس خطے میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے، اس میں اسرائیل کی زوال پذیری کو بھی پیش نظر رکھا جائے، ایران نے یوں ہی چاہ بہار بندرگاہ کے بعض حصّوں کی تعمیر کا منصوبہ دوبارہ بھارت کو نہیں دیا ہے، چین چاہتا ہے کہ چاہ بہار منصوبہ ہندوستان مکمل کرئے اور چین اپنی منصوعات افغانستان سے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ تک پہنچائے، اس تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان ہر جگہ سے مائنس ہورہا ہے کیونکہ ہماری مقتدرہ کی ساری توجہ عمران خان کو مائنس کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔
ترکمانستان سے ایران کے راستے ترکیہ تک گیس کی ترسیل پر بھی بات چیت جاری ہے، ایران اور ترکیہ جو نیٹو کا رکن ملک ہے پہلے ہی تزویراتی گیس پائپ لائن کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں ،جس کی گنجائش 14 بلین کیوبک میٹر سالانہ ہے لیکن ترکی ترکمانستان نیٹ ورک کے ذریعے مستقبل قریب میں اپنی توابائی کی ضرورتوں کیلئے مزید سالانہ 4.4 بلین مکعب میٹر اضافی گیس حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے ،ایران اور ترک حکام ترکمانی گیس کی ترکی تک ترسیل پر بات چیت کررہے ہیں جو توانائی کے نئے راستے بنانے میں ترکیہ کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی نشاندہی ہے لیکن پاکستان توانائی کے اِن تمام منصوبوں سے باہر ہے، پاکستان اپنی توانائی کے منصوبوں کیلئے کیا کررہا ہے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہیں، ہمارے قول اور فعل میں تضاد ہے، چینی کہتے ہیں افغان طالبان قول کے پکے ہیں اُنھوں نے امریکی ڈالر کیلئے امریکہ کو مطلوب کسی شخص کو اُس کے حوالے نہیں کیا۔