عمان کی شاہی پولیس نے جمعرات کو بتایا کہ دارالحکومت مسقط کے قریب واقع وادی الکبیر میں مسجد میں شیعہ عزاداروں کو نشانہ بنانے والے داعش کے مقامی دہشت گرد تھے، عمان کے سلطان نے حکام سے کہا ہے کہ سلطنت میں داعش کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے اپنی تمام طاقت لگادیں اور شرانگیز فتنے کو ملک کی سرحدوں کے اندر کام کرنے کی اجازت نہ دیں، اس سے قبل غیر مصدقہ خبروں میں بتایا جارہا تھا کہ اس واقعے میں داعش خرانسان ملوث ہے جسے پاکستان سے آپریٹ کیا جارہا ہے، پولیس نے سلطنت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ اس عزاداروں پر حملے کے سنگین واقعے میں تین عمانی شہری ملوث تھے اور بھائی تھے اور سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف مزاحمت پر اصرار کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی، پولیس کے مطابق بھائیوں کے بارے میں جاری تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ داعش کے انتہا پسند نظریات سے متاثر تھے، خیال رہے داعش نے اس حملے کی ذمہ داری لی ہے، عمانی حکام نے بتایا کہ اُنکی سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس اس قسم کے حملے کی کوئی اطلاع موجود نہیں تھی، سلطنت عمان میں امن و امان مثالی قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہاں داعش جیسی فتنہ پرور تنظیموں کی افزائش کے امکانات کو یکسر مسترد کیا جاتا رہا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہے جب داعش نے اپنی پہلی کارروائی اس قدر سنگین نوعیت کی ہے۔
سلطنت عمان کی شاہی پولیس کے مطابق مسجد علی کے اندر اور احاطے میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے 6 عزاداروں شہید ہوئے جن میں سے 4 کا تعلق پاکستان سے تھا شہید ہونے والوں میں ایک بھارتی اور ایک عمانی پولیس افسر شامل ہے جبکہ 28 زخمیوں کا علاج معالجہ کیا جارہا ہے، دوسری طرف مسقط میں پاکستان کے سفیر نے کہا کہ حملہ آور ایک ایسے نظریئے سے گمراہ تھے جو سرحدوں سے باہر ہے، عمان میں پاکستان کے سفیر عمران علی نے کہا کہ ان کی کوئی قومیت نہیں ہے، وہ ایک فتنہ انگزیز نظریئے کا شکار ہیں، چار پاکستانیوں کی میتیں جمعرات کو مسقط سے اسلام آباد اور لاہور پہنچائی گئی ہیں، پاکستانی سفارت خانے نے کہا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو کھونے والے خاندانوں اور زخمیوں کو مالی مدد فراہم کر رہا ہے۔