تحریر: محمد رضا سید
غاصب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتین یاہو اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ انہیں جنگ جاری رکھنے کیلئے مذہب کا سہارا لینا پڑ رہا ہے، اسرائیلی معاشرہ جنگ کے خوف میں مبتلا ہوکر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوچکا ہے، امریکہ اور مغربی یورپ سے اسرائیل منتقل ہونے والے یہودیوں کی واضح اکثریت نظریاتی طور پر سکیولر ہے وہ جنگ بندی اور یرغمالی یہودیوں کی واپسی کیلئے اسرائیلی سول سوسائٹی اور سیاسی پلیٹ فارمز پر پُرجوش حامیوں کی صورت میں نظر آتا ہےکرنے جو فوری جنگ کا فوری خاتمہ چاہتا ہے، اسرائیل کے اندر یہی وہ سیاسی قوت ہے جو نتین یاہو کی سیاست کیلئے بڑا چیلنج ثابت ہو رہی ہے، غاصب حکومت کے وزیراعظم نیتن یاہو بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ کو طول دے رہے ہیں حالانکہ اُن کے جارحانہ حملوں نے دنیا میں اسرائیل کی حمایت کم کرنے کے علاوہ جنگی اور اقتصادی اعتبار سے تل ابیب کو مشرق وسطیٰ کا کمزور ملک بنادیا ہے، اسرائیل پر حزب اللہ کے تابڑ توڑ حملوں نے اس کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو بھی ملیا میٹ کردیا ہے، عرب دنیا کا دانشمند طبقہ کھلے عام یہ بات کررہا ہے کہ جب چند ایک مزاحمتی تنظیم تل ابیب حکومت کو گھٹنوں پر کھڑا کرسکتی ہیں تو عرب حکومتیںاپنی پوری دفاعی قوت کیساتھ اسرائیل کے خلاف کھڑی ہوگئیں تو تل ابیب کا وجود قائم رہنا مشکل ہوجائیگا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو جنگ ختم کرنے کے اندرونی مطالبے کے زور کو توڑنے اور جنگی ماحول قائم رکھنے کیلئے مذہبی عناصر کو استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہونا چاہتے ہیں، گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے یہودیوں کے ایک دینی مدرسے پہنچ گئے اور وہاں جنگ میں کامیابی کیلئے دعائیہ تقریب میں شریک ہوئے، اسی طرح غاصب اسرائیلی حکومت کے وزیراعظم نے حالیہ دنوں میں یہودی مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے، یہ ملاقات اسرائیل میں جاری جنگی حالات کے دوران ہوئی، اس ملاقات میں اسرائیلی وزیراعظم نے یہودی مذہبی رہنماؤں سے جنگ کیلئے مذہبی کور حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، اس ملاقات میں جو اسرائیلی الیکٹرونک میڈیا پر براہ راست دکھائی گئی جس میں اس بات پر غور ہوا کہ یہودیوں کو جنگ کے باعث بحران کا مقابلہ کرنے کیلئےکس طرح مذہبی اور روحانی رہنمائی فراہم کی جا سکتی ہے، غاصب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس ملاقات کے دوران یہودی مذہبی کتب کو کھول کھول کر بآواز بلند یہودی عقائد پر مبنی اقتباسات پڑھےجو دراصل جنگ مخالف نظریات رکھنے والی قوتوں کو مذہبی طور ہر ہراساں کرنے کی کوشش تھی ، نیتن یاہو مذہبی عناصر سے جنگ مخالفین کے خلاف فتویٰ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے مگرچند حقیقتیں مذہبی جذبات سے بھی ماوراء ہوتی ہیں، معیشت کی تباہ حالی برداست کی جاسکتی ہے مگر بے مقصد جنگ کیلئے اسرائیلی شہریوں کا خون بہایا جائے یہ یہودیوں معاشرے کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔
یہودی مذہبی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ ماضی کے المیے، جیسے ہولوکاسٹ سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل میں قوم کو مضبوطی سے آگے بڑھنا چاہیے اور موجودہ جنگی حالات کا سامنا کرنے کے لئے قوم کو یکجہتی کی ضرورت ہےجبکہ اسرائیلی معاشرہ 7 اکتوبر کے بعد کے حالات سے نبرد آزما ہے، ربی تمر ایلاد ایپلبام ان مذہبی رہنماؤں میں شامل ہیں جو مقدس سرزمین سے غیر یہودیوں کے انخلا ء کے سب سے بڑے داعی ہیں وہ زخمی اسرائیلی فوجیوں، یرغمالیوں کے خاندانوں اور ہلاکتوں کے صدمے سے متاثر ہونے والوں کو روحانی اور نفسیاتی مدد فراہم کررہےہیں، اسی طرح شمالی امریکہ کے شالوم ہارٹ مین انسٹی ٹیوٹ کے صدر یہودا کرٹزر جو شمالی امریکہ، اسرائیل اور پوری دنیا میں یہودی برادریوں پر اثر انداز ہونے والے موجودہ واقعات کو مذہبی رنگ دیکر انہیں جنگ کی حمایت کرنے پر آمادہ کرتے ہیں یہودا کرٹزر کی ساری کوششوں کا محور وزیراعظم نیتن یاہو کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے وہ یہودی مفکرین کیساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان بنیادی یہودی عقائد اور اقدار کو بیان کرتے ہوئے جنگ کی اہمیت کو مذہبی کور دیتے ہیں۔
اسرائیل کے اندر اس مذموم جنگ کو جاری رکھنے کیلئے نیتن یاہوجس طرح یہودی عقائد کو اپنی سیاست کیلئے استعمال کررہے ہیں وہ راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے اور دنیا کے ایک بہت بڑے علاقے کو متاثر کررہا ہے، جنگ کیلئے مذہبی عقائد کو استعمال کرنے کا ایک بڑا نقصان یہودیوں کے خلاف نفرت بڑھے گی اور دنیا بھر میں فرقہ وارانہ بنیاد پر حملے شروع ہوسکتے ہیں جو صرف اور صرف لوگوں میں نفرت کو بیدار کرسکتے ہیں، امریکہ جو اس جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا طرفدار ملک ہے ، 7 اکتوبر 2023 ء کے بعد سےامریکہ نے اسرائیل کو نمایاں فوجی اور مالی مدد فراہم کی ہے، بائیڈن انتظامیہ نے ابتدائی طور پر 6.8 بلین ڈالر کی فوجی امداد کی منظوری دی، جس میں میزائل دفاعی نظام اور توپ خانے کا سامان شامل ہے، مزید برآں امریکہ نے اپنے ذخیرے سے تقریباً 4.4 بلین ڈالر کے ہتھیار فراہم کیے ہیں، جن میں غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی تیز رفتار فوجی کارروائیوں کے لئے گولہ بارود بھی شامل ہے، دسمبر 2023 تک اسرائیل کے لئے کل امداد 17.9 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی ، جس میں نہ صرف ہتھیار شامل تھےبلکہ امریکی افواج اور میزائل دفاعی نظام کی تعیناتی جیسے فوجی آپریشن بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ صدر بائیڈن نے اسرائیل کے لئے 105 بلین ڈالر کے ایک بڑے امدادی پیکج کے حصے کے طور پراسرائیل کیلئے 14 بلین ڈالر کی اضافی درخواست کی ہے، امریکہ کو چاہیےکہ وہ نیتن یاہو کو آمادہ کرین وہ خطے میں جنگ جاری رکھنے کیلئے مذہب کا استعمال نہ کریں کیونکہ نتین یاہو خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔