تحریر : محمد رضا سید
اسرائیلی جارحیت کی عالمی پر مذمت کے دوران جمعہ کو امریکہ کی اسرائیل کو فیور کرنے والی قرارداد کو چین اور روس نے ویٹو کردیا ہے قرارداد میں 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے دوران گرفتارجنگی قیدیوں کی رہائی کو جنگ بندی سے مشروط کیا تھا، اس قرارداد میں امریکہ نے رفح میں اسرائیل کے اعلان کردہ فوجی آپریشن کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا، حماس نے جنگ بندی کیلئے مذاکرات میں تجویز کیا ہےکہ اسرائیلی جنگی قیدیوں کو بتدریج رہا کیا جائے گا،جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران اسرائیلی افواج کو الراشد اور صلاح الدین گلیوں سے پیچھے ہٹنا ہوگا ، جو جنوب سے شمال کو ملانے والی دو اہم شاہراہیں ہیں تاکہ بے گھر فلسطینیوں کی ان کے گھروں کو واپسی اور غزہ تک امداد کی ترسیل یقینی بنائی جاسکے، حماس سب سے پہلے خواتین کو رہا کرئے گی ،جن کے بدلے اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں کی جیلوں میں عمر قیدکی سزا پانے والے ایک ہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا ، حماس نے جنگ بندی مذاکرات میں تجویز کیا ہے کہ ایک اسرائیلی ریزروسٹ اسیر کی رہائی کے بدلے تل ابیب کو حماس کے منتخب کردہ 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا، دوسرے مرحلے میں مزید قیدیوں کی رہائی سے مستقل جنگ بندی کا اعلان کیا جائیگا جبکہ تیسرے مرحلے میں اسرائیل کو غزہ پر سے اپنا محاصرہ ختم کرکے غزہ کیی پٹی میں تعمیر نو شروع کرنا شامل ہوگا، رفح بارڈر پر فلسطینیوں کی خیمہ بستیوں پر حملے کے اسرائیلی حکومت کے اعلان کو لیکر عالمی برادری کا تل ابیب پر دباؤ بڑھ رہاہےاور عالمی ادارے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ رفح میں فوجی آپریشن کی وجہ سے انسانی المیے رونما ہوسکتا ہے، رفح میں فلسطینی پناہ گزین قحط کا سامنا کررہے ہیں، رفح بارڈر پر اُن فلسطینیوں نے پناہ لی ہے جو شمالی اور جنوبی غزہ میں اسرائیلی بمباری سے محفوظ رہنے کیلئے امریکہ اور مغربی طاقتوں سمیت اسرائیل کی اس یقین دہانی پر منتقل ہوئے تھے کہ وہ یہاں بمباری اور اسرائیلی فوجی حملے سے محفوظ رہیں گے، یاد رہے کہ اسرائیلی حکومت کی خواہش تھی کہ 20 لاکھ فلسطینیوں کو رفح سرحد کے اُس پار صحرائے سینا کے مصری علاقے میں ڈھکیل دیا جائے اور غزہ سے فلسطینیوں کو خالی کرانے کے بعد یہاں بھی غیرقانونی بستیاں بسا کر یہودیوں کی آبادکاری کردی جائے، ایک تو مصر نے اسرائیل کی اس مذموم تجویز کو سخت انداز میں مسترد کیا اور دوسرے زمانے کے مارے ہوئے فلسطینی بھی اپنی سرزمین سے جدا ہونے کو تیار نہیں ہوئے، دوسری طرف یورپی یونین نے رفح کے قحط زدہ فلسلطینیوں کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان متاثرین تک پہنچانے کیلئے اسرائیل سے محفوظ راستہ مانگا ہےاور سخت لہجے میں اسرائیل کو رفح میں فوجی آپریشن شروع کرنے سے منع کیا ہے۔
اسرائیل کیلئے امریکی اور یورپی حمایت ہی تھی جس نے اسرائیل کو موقع فراہم کیا کہ وہ غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنانے کے علاوہ 32 ہزار فلسطینیوں کو شہید کردے لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اسرائیل اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف عالمی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوا، جس نے امریکی اور یورپ کیلئے کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اسرائیل کو من مانی کیلئے مکمل آزاد چھوڑنے کی اپنی سابقہ پالیسی پر نظرثانی کریں، امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کم ازکم 3 مرتبہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرنے کیلئے پیش کردہ قراردادوں کو ویٹو کیا ہے، سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی امریکی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن تل ابیب میں موجود ہیں جو اسرائیلی قیادت کو جنگ بندی کے دوررس فوائد گنوانے پہنچیں ہیں، بلنکن واضح طور پر اسرائیلی قیادت کو رفح پر اسرائیلی حملے کی صورت میں اسرائیل کو پہنچنے والے سیاسی نقصان سے آگاہ کرینگے۔
غزہ کے الشفاء ہسپتال پراسرائیلی حملوں کا سلسلہ گزشتہ چار دنوں سے جاری ہے، اس علاقے میں حماس کے ارکان کو مارے جانے کے اسرائیلی دعوے کی غیرجانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے، مغربی ذرائع ابلاغ اسرائیلی دعوؤں کے برخلاف عام فلسطینیوں کی شہادتوں جن میں زیادہ تعداد مریضوں کی ہے کی خبریں نشر کررہے ہیں اے ایف پی نے یونس نامی 60 سالہ فلسطینی مریض کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ہسپتال سے نوجوان طبی عملے کی گرفتاریاں کی ہیں، یونس نے یہ بھی بتایا کہ اُسے بھی اسرائیلی فوجی برہنہ کرکے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر تفتیشی مرکز لے گئے تھے کئی گھنٹوں کی تفتیش کے بعد انہیں رہا کردیا گیا اور اب وہ رفح کی طرف جارہے ہیں، سلامتی کونسل میں پیش کردہ امریکی قرارداد کے مسودے میں شہریوں کے تحفظ اور انسانی امداد کی فراہمی کی یقینی بنانے کے لئے فوری اور پائیدار جنگ بندی کے مطالبے کو 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے دوران حماس کی طرف سے گرفتار کئے گئے اسرائیلیوں کی رہائی سے مشروط کیا ہے، یہ وہ نکتہ ہے جس کو حماس تسلیم نہیں کرسکتی، امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد میں اسرائیل کو اسکے جنگی جرائم پر ملامت نہیں کیا گیا ہےاور نہ ہی خطے میں تشدد کی وجوہات ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، امریکہ کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو ختم کرانے میں تیزی کی ایک وجہ جنگ بندی کیلئے حماس اور اسرائیل کے درمیان بلواسطہ مذاکرات میں اسرائیل پر پڑنے والا دباؤ ہے، حماس کی جنگ بندی کی شرائط قانونی اور سیاسی تقاضوں پر پورا اترتی ہیں لہذا جنگ بندی مذاکرات کے شراکتدار حماس کی شرائط کو سپورٹ کررہے تھے جو اسرائیل کیلئے مشکلات میں اضافہ کرتیں، اسرائیل کو غزہ جنگ چھیڑ کر ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے، امریکہ اور یورپی یونین اس صورتحال سے نکالنے کیلئے اسرائیل کو رسکیو کرنا چاہتی ہیں ورنہ جنگ بندی کی ضرورت تو رمضان المبارک سے قبل زیادہ تھی، جس وقت واشنگٹن مذاکرات کی میز پر اسرائیل کے ساتھ کھڑا تھا۔
5 تبصرے
اللہ تعالیٰ فلسطینیوں پر رحم کرئے لیکن امریکہ سے خیر کی اُمید نہیں ہے
جنگ بندی مسئلے کا حل نہیں ہے غزہ میں تباہی کو درست کرنے اور مکانات تعمیر کرنے کیلئے وسائل کہاں سے آئیں گے
ظلم کی انتہا کی ہوئی ہے اسرائیل نے اور مٖربی حکومتیں اسرائیل کے جھوٹ جو مان کر اسکی حمایت کررہیں ہیں
Israel has suffered a lot of economic damage, so the ceasefire is its compulsion
امریکہ سلامتی کونسل میں قرارداد منظور کرائے گا تو روس اور چین وہاں کیا کررہے ہیں وہ فلسطینیوں کی حمایت میں بیان دیتے ہیں مگر عملی طر پر کچھ نہیں کرتے یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے