تحریر: محمد رضا سید
امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے غزہ میں سات ماہ طویل جنگ کے دوران فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی فوج اور جیل اہلکاروں کے بدترین اور غیر انسانی سلوک کی خبروں پر پہلی بار تشویش کا اظہار کیا ہے، امریکی دفتر خارجہ کے مطابق نیوز چینل سی این این پر نشر ہونے والی رپورٹ کے بعد امریکی حکام اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی اِن سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ ہوا ہے اور اسی روز ہی امریکی دفتر خارجہ نے اسرائیل سے فلسطینی قیدیوں کیساتھ غیر انسانی سلوک کرنے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، سی این این کی رپورٹ میں کہا گیا فلسطینی قیدیوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے جسموں پر سوائے ایک لنگوٹ نما کپڑا باندھنے کے انہیں بے لباس حالت میں رکھ کر ان کی بے توقیری کی جاتی ہے، امریکہ میں قائم ایک انسانی حقوق نیٹ ورک نے سی این این کی اس رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل کے عرب صحرائی علاقے نیگیف میں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی فوج نے اکتوبر 7 کے بعد جنوبی غزہ سے گرفتار کرکے فوجی کیمپ میں قائم عارضی جیل میں رکھا گیا جہاں انہیں شدید سردی میں بے لباس کرکے شرم گاہ پر کرنٹ لگاکر اذیت دیتے ہیں، ان میں ایسے قیدی بھی ہیں جنہیں غزہ سے زخمی حالت میں گرفتار کر کے لایا گیا تھا اور ایسے بھی ہیں جو گرفتار کیے جانے کے بعد زحمی کیے گئے تھے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے حامی ایک وسل بلور ادارے نے تیمان فوجی اڈے میں قید فلسطینیوں کے خلاف خوفناک اور غیر انسانی حالات کو بے نقاب کیا ہے جو مقبوضہ علاقوں کے جنوبی حصے میں صحرائے ، نیگیو میں ایک حراستی مرکز کے طور پر بھی کام کررہا ہے وسل بلورز نے سی این این کو بتایا کہ اسرائیلی فوجی اڈے میں قائم عارصی جیل میں کام کرنے والے تین اسرائیلی حکام نے بتایا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں کے دوران جن محصور فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا تھا انہیں اس عارضی جیل خانے میں رکھا گیا، اِن اسرائیلی حکام نے بتایا کہ قیدیوں کیساتھ ہونے والے غیرانسانی سلوک اور تشدد کے نتیجے میں قیدیوں کے زخم ناسور بن جاتے ہیں جبکہ عارضی جیل میں تعینات ڈاکٹرز قیدیوں کا علاج کرنے کے بجائے اُن کے اعضاء کاٹ دیتے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو مسلسل ہتھکڑیاں لگاکر رکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے زخم میں پیراسائٹ کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں جو کنسر کا باعث بننے کے خدشے پر ڈاکٹرز عموماً اِن اعضاء کو کاٹ دیا کرتے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں میں 21 سال سے کم عمر جوانوں کی تعداد زیادہ ہے جنکے کوئی نہ کوئی اعضاء کٹے ہوئے تھے، قیدیوں کو آپس میں بات کرنے اور یا حکام کو پانی اور غذا کیلئے آواز دینے کی اجازت نہیں ہے، فلسطینی قیدیوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک حصّے میں دیواریں ہیں جہاں تقریباً 70 فلسطینی قیدیوں کو سخت جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، رپورٹ کے مطابق دوسرا فیلڈ ہسپتال ہے، جہاں زخمی قیدیوں کو بستروں پر الکٹرک بلٹ سے باندھا ہوا تھا، یہاں فلسطینی قیدیوں کو ڈائپر پہنائے جاتے ہیں اور انہیں نلکی کے ذریعے کھانا کھلایا جاتا ہے، غزہ پر تل ابیب حکومت کے حملے کی حمایت کرنے والے گروہوں کی طرف سے قانونی اور انتقامی کارروائیوں کا خطرہ مول لینے والے وسل بلورز نے فلسطینی قیدیوں کو انتہائی جسمانی اذیت کیساتھ سخت گیر یہودی فوجیوں کی نگرانی میں رکھا جاتا ہے۔
سی این این کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرمئی رنگ کے ٹریک سوٹ میں مردوں کی قطاریں دیکھیں، یہ قیدی پتلے گدوں پر بیٹھے نظر آ رہے تھے، جن پر خاردار تاروں کی باڑ لگائی گئی تھی جبکہ قیدیوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی، رپورٹ میں وسل بلورز کا حوالہ سے بتایا گیا کہ فلسطینی قیدیوں کو پہلو بدلنے کی اجازت نہیں ہے انہیں گھنٹوں گھنٹوں سیدھا بیٹھنا ہوتا ہے، وسل بلور نے بتایا کہ فیلڈ ہسپتال میں بطور میڈیسن کام کرنے والے نے فلسطینی قیدیوں پر غیر انسانی سلوک کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ سخت نظریات رکھنے والے یہودی افسران فلسطینی قیدیوں کے نازک اعضاء کو لچکدار چھڑی سے نشانہ بناتے ہیں اور آپس میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں جبکہ قیدی کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوتے ہیں، اس نے نوٹ کیا کہ محافظوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ قیدیوں کو خاموش نہ رہنے پر سخت ترین سزا دیں، ایک اور وسل بلور نے کہا کہ مار پیٹ کا انتظام انٹیلی جنس اکٹھا کرنے کے لئے نہیں بلکہ انتقامی جذبے کے تحت کیا جاتا ہے جبکہ قیدی فلسطینیوں حماس کے سے بھی تعلق نہیں ہوتا، واضح رہے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں اچانک جوابی کارروائی کے بعد غاصب اسرائیل نے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کے دوران فلسطینی قیدیوں کو اف کرنے کی اجازت نہیں ہے فقط آواز کے بغیر رو سکتے ہیں، اسرائیلی فوجیوں کو تشدد کے دوران عربی زبان میں انتہائی اونچی آواز چپ رہو، چپ ہو جاؤ اور اپنا منہ بند رکھو کو سنا گیا، سی این ای کی اسی رپورٹ کے دوسرے حصے میں دکھایا گیا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو ایک طبی مرکز میں رکھا ہوا ہے اور فلسطینی قیدیوں پر تشدد اور مسلسل ہتھکڑیوں میں رکھے جانے کی بنا پر کلائیاں اور دیگر اعضاء زخمی ہیں اور ڈاکٹر ان زخمی اعضا کو کاٹ رہے تھے، یاد رہے فلسطینی ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد بھی اس عارضی جیل میں قید ہے، یاد رہے الشفا ہسپتال کے آرتھو پیڈک شعبے کے سربراہ اسی اسرائیلی جیل میں جاں بحق ہوچکے ہیں، امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے اسرائیل سے ان انسانیت سوز واقعات کے بارے میں پوچھا ہے، ترجمان نے کہا ہمیں یہ جان کر تشویش ہوئی ہے اس لئے ہم فلسطینیی قیدیوں کے حوالے سے ان سامنے والے واقعات سمیت دوسرے الزمات کے بارے میں بھی نظر رکھے ہوئے ہیں، امریکی ترجمان نے کہا امریکہ نے اسرائیل کو بتا دیا ہے کہ کہ تحقیقات کے دوران بھی انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہ ہونے دے، پٹیل نے کہا ہمارا ہر ملک کے ساتھ اس سلسلے میں بڑا واضح موقف ہے کہ قیدیوں کے ساتھ انسانی اصولوں، عزت اور وقار کا خیال رکھتے ہوئے سلوک کیا جا نا چاہیے۔
امریکہ کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی رپورٹ پر جس طرح سے ٹھنڈا امریکی ردعمل سامنے آیا ہے، وہ عین توقعات کے مطابق تھا، اگر یہ واقعات امریکہ مخالف ملک میں ہوتے تو اس ملک پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کردی جاتیں لیکن اسرائیل کیلئے امریکہ کا ہمدردانہ رویہ خود امریکہ کو ملزم کی صفوں میں کھڑا کرنے کیلئے کافی ہے، اکتوبر 7 کے بعد غزہ کی پٹی میں جو تباہی اور بربادی دیکھی جارہی ہے وہ سب امریکی آشیر واد کیساتھ ہورہا ہے، عرب دارالحکومتوں میں موجود امریکی سفراء نے واشنگٹن کو اسی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسرائیل کی غیرضروری طرفداری عالم عرب کے جوانوں میں امریکہ سے نفرت کے بیج بو رہا ہے، ابھی دنیا عراقی دارالحکومت بغداد کے مشرق میں قائم ابوغریب جیل میں امریکی فوجی کنٹریٹرز کی جانب سے عراقی قیدیوں کیساتھ غیرانسانی سلوک کو نہیں بھولے تھی کہ اسرائیل فوجیوں نے ریاستی ایماء کیساتھ قیدیوں سے وہ سلوک روا رکھا جو ہٹلر نے بھی یہودیوں کیساتھ روا نہیں رکھا تھا، انسانی حقوق کے عالمی ادارے تو غزہ کی پٹی پر اسرائیلی مظالم پر خاموش ہیں مگر اُمید ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں اس معاملے پر ضرور آواز اُٹھائیں گی، انسانی اقدار اور حقوق کی باتیں کرنے والے مغربی ممالک اور اقوام متحدہ فلسطینی قیدیوں کیساتھ غیرانسانی رویہ رکھنے کے جرم میں اسرائیل کے خلاف ضرور تادیبی کارروائی کریں گے۔