تحریر : محمد رضا سید
تحریک لبیک کے کارکنوں کی جانب سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد پر دھرنے کا تیسرادن ہوچکا ہے مگرعشرہ محرم الحرام کے دوران مذہبی اجتماعات میں رکاوٹ بننے کاموجب دھرنا ختم کرانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے بلکہ انتظامیہ کا ایک اعلیٰ افسر دھرنے کے شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتا ہوا سوشل میڈیا پر موجود ایک ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے، متشدد مذہبی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے فیض آباد انٹرچینج کو مکمل طور پر چاروں اطراف سے بند کر رکھا ہے جس کے وجہ سے مری سے راولپنڈی اور پشاور سے لاہور جانیوالی ٹریفک مکمل طور پر بند ہے، تحریک لبیک نے دھرنا دینے کیلئے جن مطالبات کا سہارا لیا ہے اُس پر پاکستان میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے، غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کی وزارت خارجہ تحریک لبیک کےمطالبات سے نو ماہ پہلےہی واضح پوزیشن لے چکی ہےتو نوماہ بعد اچانک دھرنا دینے کا خیال کیا معنیٰ رکھتا ہے؟، محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس گروہ کو موجودہ حالات کے تناظر میں ہر قیمت پر دھرنا دلوانا ہی تھا ،غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کا معاملہ ہمارے ذہین ترین افراد کیلئے اچھا عنوان سمجھ میں آیا، پاکستان کے اداروں اور بیوکریسی میں اعلیٰ سے اعلیٰ ذہین افراد موجود ہیں، اگر کوئی گروہ اُن سے وابستہ ہوجائے تو اسکی قسمت چمک جاتی ہے لہذا تحریک لبیک والوں کو دھرنے کیلئے عنوان تلاش کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی ہمارے ذہین لوگوں نے غزہ پٹی میں اسرائیلی بربریت کو نو ماہ گذر جانے کے باوجود دھرنے کا عنوان بنادیا، فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھنے والے نوجوان کو جب یہ معلوم ہوا کہ اُن کے دینی بھائیوں کی اسرائیل فوج نسل کشی کررہی ہے تواشتعال میں آگئے اور فیض آباد پر دھرنا دیکر اسرائیل کیلئے مشکلات کھڑی کردیں ۔
پاکستان کی حکومت نے آج سے نو ماہ قبل جب اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کی تھی یہی مطالبات عالمی برادری سے کئے تھے، جن پر عالمی برادری نے تو کان نہیں دھرا تھا مگر دھرنے کیلئے یہ مطالبات فائیلوں سے نکالے گئے اور تحریک لبیک کے مومن نوجوانوں کے سپرد کردیئے گئے کیونکہ پاکستان کی حکومت نے اپنی ذمہ داریاں نو ماہ پہلے ہی ادا کردیں تھیں، پاکستان سے زیادہ توقعات رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، پاکستان امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ناراضگی مول لے کر غزہ کے غریب عربوں کیلئے اپنے میزائیلوں کے رخ اسرائیل کی طرف کرئے یہ پاکستان سے نہیں ہوسکتا، ہم تو معمولی سی امریکی ناراضگی پر اچھی خاصی چلتی حکومت کو برخاست کردیتے ہیں، ہمیں اپنی اشرفیہ کا پیٹ پالنا ہےجس کیلئے ہمیں آئی ایم ایف سے سات ارب امریکی ڈالر کا قرضہ بھی حاصل کرنا ہے، اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہم امریکہ سے مخالفت مول نہیں لے سکتے چاہے ہمیں کشمیر سے دستبردار ہونا پڑے، ہم روس سے سستا تیل نہیں لے سکتے ، ایران سے سستی گیس نہیں لے سکتے، چین کو گوادر تک رسائی نہیں دے سکتے، افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتے حالانکہ قیام پاکستان کے وقت سے پاکستان کی وزارت خارجہ میں دیرینہ پالیسی موجود ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ کابل میں جس گروہ کی حکومت ہوگی اُسے ہی افغانستان کی نمائندگی کرنے کا حق ہوگا، اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے بتایا ہےکہ ابھی تک تحریک لبیک کے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کے لئے متعلقہ حکام کی طرف سے کوئی تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے، تحریک لبیک نےحکومت پاکستان سے تین مطالبات کئے ہیں ، جس میں کہا گیا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں تک غذائی و طبی امداد فی الفور پہنچائی جائے،دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت سرکاری سطح پر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرے اور تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔
پاکستان کی جانب سے کسی نہ کسی حد تک اِن تینوں مطالبات پر سالوں سے عمل کیا جارہا ہے، فلسطینی اشو پر امریکی صدر بھی چاہے تو پاکستان کی فلسطین پالیسی کو تبدیل نہیں کرسکتا، پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جو موقف اختیار کیا ہے ، اُس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو نسل کشی کا ملزم ٹہرایا جاچکا ہے، بادی النظر میں پاکستان نےعالمی عدالت میں جو دلائل پیش کئے اُس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ نیتن یاہو دہشت گرد ہے، پاکستان نےغزہ کیلئے غذائی اور طبی امداد بھی پہنچا ئی ہے، جماعت اسلامی کی طبی امدادی ٹیم غزہ کے لوگوں کی مدد کررہی ہے تو پھرتحریک لبیک کو فلسطین کے عنوان سے فیض آباد پر دھرنا کیوں دلوایا جارہا ہے؟، جس طرح پاکستان کے حساس اداروں اور حکومت میں کچھ ذہین افراد موجود ہیں اُسی طرح پاکستان کے عوام بھی مجموعی حیثیت میں ذہین ہیں وہ دھرنے کی اصل وجہ تک پہنچ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ عدلیہ کے حالیہ فیصلے خودسری کی نشاندہی کررہے تھے اور نظام انصاف کے بعض ارکان چاہے وہ نچلی سطح کی عدالت میں بیٹھ رہے ہوں یا اعلیٰ عدلیہ کی کرسی پر بندوق کی نالی کا اپنے قلم سے سوراخ بن کرکے بیباک فیصلے دینا شروع ہوچکے ہیں، انہیں ابھی نہ روکا جاتا تو آگے حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہوسکتے ہیں لہذا جواب تو دینا ہی تھا اور ایسے گروہ کا انتخاب کرنا جن سے شریفوں کاعزت بچانا مشکل ہوتاہے، بہرحال جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ اچھائی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم نہیں روک سکے گا۔