پاکستان کے فوجی آپریشنز اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثرہ سرحدی قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے عمائدین اسلام آباد پہنچے ہیں تاکہ ان کے مطابق فوجی کارروائیوں کے دوران ان کے آٹھ سال قبل تسلیم شدہ اربوں روپے کے معاوضوں کی ادائیگی ہو سکے، قبائلی وفد کے رہنما جاوید شابی خیل محسود نے بتایا کہ ان قبائل کے بارے میں دنیا کو معلوم ہے کہ وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں، ہم پچھلے 20 سال سے حالت جنگ میں ہیں لیکن آج ہم اس جگہ پر ایک دردناک مسئلے کی وجہ سے پہنچے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں قبائلی اضلاع میں فوجی کارروائیاں ہوئیں تو اس میں جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں، اس میں لوگوں کے مکان، مارکیٹس مسمار کی گئی ہیں، اس میں لوگ شہید ہوئے ہیں ان کا آج تک معاوضہ نہیں مل سکا ہے، ہم مجبور ہو کر اسلام آباد آئے ہیں تاکہ اپنی فریاد آگے پہنچا سکیں، ان سے پوچھا کہ یہ کتنے لوگوں کا مسئلہ ہے کیونکہ حکومت کے مطابق ادائیگیاں تو کی گئی تھیں؟ جاوید شابی خیل کا جواب تھا کہ حکومت کے اپنے ریکارڈ کے مطابق وہ ان کے 65 ارب روپے کی قرض دار ہے، صرف وزیرستان میں 80 ہزار خاندان جن کو (ادائیگی کے) ٹوکن ملے ہوئے ہیں اور وہ انتظار کر رہے ہیں، ایک ضلع میں اگر اتنے خاندان منتظر ہوں تو اس سے بڑا مسئلہ کیا ہوگا۔
قبائلی عمائدین کی اسلام آباد میں گذشتہ کئی روز سے موجودگی کے دوران فی الحال حکومت نے مذاکرات کیلئے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے، جاوید نے بتایا کہ پہلے انہوں نے اپنے مشران کو طلب کیا ہے تاکہ ان کے ساتھ مشورے کے بعد دوسرا قدم حکومت کی جانب بڑھے گا، قبائلی عمائدین آئندہ چند روز میں اسلام آباد میں چار سے چھ جون کے درمیان قومی جرگہ طلب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جوکہ عمومی سیاسی اجتماعات سے قدرے مختلف ہوتا ہے، جاوید نے کہا کہ انہوں نے جرگہ اس لئے بلایا ہے کیونکہ وہ احتجاج نہیں کر رہے نہ کسی کے پیچھے کوئی غلط بات کر رہے ہیں، ہم اپنے بڑوں سے مشورہ کرنے کے بعد ان سے کہیں گے کہ جا کر ان کی بات کریں، اسی سلسلے میں وزیر اور محسود قبائل پر مشتمل عمائدین کے اس وفد نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، پشتونخوا میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور دیگر سے گذشتہ روز ملاقات کی تھی، اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ تو حزب اختلاف میں ہیں زیادہ سے زیادہ ان کی بات کو آگے بڑھائیں گے۔