تحریر محمد رضا سید
بلوچستان میں ڈکی ضلع میں کو ئلے کی کان میں پشتون کان کنوں کا قتل عام، دہشت گردی کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں اور کون ہے پس پردہ؟ یہ سب اہم سوالات ہیں جنھیں سکیورٹی ادارے نظرانداز نہیں کریں گے، بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسند عموماً پنجابی کارکنوں اور مزدوروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں، اگست 2024ء میں بلوچستان بھر میں نواب اکبر خان بگٹی کی برسی پر بلوچستان کے مسلح علیحدگی پسندوں نے دو روز تک پورے صوبے میں ریاستی سکیورٹی کو پائمال کرتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناکر بیدردی کیساتھ قتل کیا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، جمعرات کو بلوچستان کے ضلع دکی میں کوئلے کی کانوں پر نامعلوم مسلح افراد نے راکٹ حملوں اور دستی بموں سے حملہ کیا ہے جب کہ فائرنگ سے بھی مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا، اس افسوسناک واقعہ میں 20 کان کن جاں بحق ہوگئے، جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب دکی شہر سے کچھ فاصلے پر کوئلے کی کانوں میں یہ واقعہ پیش آیا ہے، اسپتال ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق ہلاک ہونے والے کان کنوں میں سے تین کا تعلق افغانستان سے ہے جب کہ چھ کا ضلع ژوب، چار کا ضلع قلعہ سیف اللہ، تین کا ضلع پیشن اور دیگر کا تعلق لورالائی، ہرنائی اور کچلاک کے مختلف علاقوں سے ہے، جمعرات کو دکی لیبر فیڈریشن نے ہلاک ہونے والے مزدوروں کی لاشوں کے ہمراہ دکی کے باچا خان چوک پر احتجاجی دھرنا شروع کیا، اس واقعے کے خلاف شہر بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے اور تمام کاروباری مراکز بند ہیں، ان کانوں سے کوئلہ نکالنے کا کام جیند کول مائنز کمپنی کرتی ہے جس کے مالک ڈسٹرکٹ چیئرمین حاجی خیر اللہ ناصر ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے کوئلہ کی 10 کانوں میں نصب انجن بھی نذرِ آتش کر دیئے ہیں، اطلاعات کے مطابق دکی میں کوئلے کی کانوں میں کوئٹہ، پشین کے علاوہ سوات اور شانگلہ اور اس کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک افغانستان سے تعلق رکھنے والے مزدور کام کرتے ہیں۔
دکی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 300 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے، اس ضلع کی سرحدیں کوہلو سے بھی ملتی ہیں جس کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو علیحدگی پسند عناصر سے پُر ہے، ضلع کی آبادی کی غالب اکثریت مختلف پشتون قبائل پر مشتمل ہے، یہاں کوئلے کے ذخائر ہیں جن پر بڑی تعداد میں مزدور کام کرتے ہیں، دکی اور اس کے نواحی علاقوں میں پہلے بھی کوئلے کی کانوں، کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں پر حملوں کے علاوہ مزدوروں کے اغوا اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، بلوچستان میں 64 فیصد بلوچ اور 25 فیصد پشتون آباد ہیں، حالیہ تاریخ میں اِن دونوں قبائلی اکائیوں میں کوئی بڑا تصادم نہیں ہوا تاہم بلوچستان کے پشتون اور افغان پشتونوں کے درمیان تاریخی طور پر ہم آھنگی زیادہ ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے بلوچ جس طرح سے علحیدگی کا خواب دیکھتے ہیں پشتون اس طرح کی علیحدگی کے خلاف ہیں وہ افغان پشتونوں کیساتھ زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں، یہ صورتحال اس صوبے کی پیچیدہ سیاست کو اُس وقت اور اُلجھا دیتی ہے جب پشتون مذہبی اور سکیولر سیاست میں تقسیم نظر آتے ہیں۔
ضلع ڈکی میں رونما ہونے والا افسوسناک واقعہ کے پس منظر میں قبائلی اور قومی تعصب سے زیادہ اس سوچ کا دخل زیادہ زیادہ لگتا ہے کہ بلوچستان کی معدنیات کی لوٹ مار کی جارہی ہے، یہی سوچ خیبرپختونخواہ میں بھی پھیل چکی ہے یہاں کے پختونوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اُن کے صوبے کی قیمتی معدنیات کو پاکستانی معاشرے کی بالادست قوتیں ہڑپ کرنا چاہتی ہیں، یہی سوال سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ مراد شاہ بھی سندھ سے نکلنے والی گیس کے حوالے سے اُٹھاتے ہیں اُن کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ انھوں نے آئین کی اٹھارویں ترمیم کی روشنی میں سندھ سے نکلنے والی قدرتی گیس پر پہلا حق سندھ ، کا قرار دیا تھا، قدرتی گیس کے معاملے میں سب سے زیادہ ناانصافی تو بلوچستان کیساتھ ہوئی ہے، پاکستان میں قدرتی گیس کو سوئی گیس کہا جاتا ہے لیکن خود سوئی کے لوگوں کو قدرتی گیس میسر نہیں ہے، قدرتی وسائل سے فیضیابی سے متعلق شفاف فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وفاق کی تمام اکائیوں کو متحد رکھا جاسکے، طاقت کے استعمال کا دور ختم ہوچکا ہے، منطق اور باہمی رواداری کو پیش نظر رکھ کر قوم کے حقیقی نمائندے اِن مسائل کو حل کرائیں، فارم 47 کی حکومت میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ حالات کو درست سمت دے سکے۔